عورت ،معاشرہ اوراسلام(1)

0 189

تحریر: شہزاد افق
عورت ،معاشرہ اوراسلام یہ تینوں اہم موضوع ہیں ۔عورت کو معاشرے سے نکال دیں ،تو معاشرہ خود معاشرے کہلانے کاحق کھود ے گا۔عورت کے بغیر معاشرہ نامکمل اوربے مقصد وبے معنی ہوجاتاہے ۔ اگر ان دونوں کواسلام سے جدا کردیں ،تو شاید معاشرہ تو رہتا ہے مگر عورت کا وجود ،احساس دھندلا جاتے ہیں۔ موجود ہ دور میں جواسلام کے بارے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں،ان میںایک یہ بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حیثیت نہیں دی ہے، اوراس کی تگ ودو پراتنی پابندیاں عائد کردی گئی ہیںکہ وہ زندگی کی دوڑ میںلازماپیچھے رہ جاتی ہے اورہمیشہ مرد کی دست نگر رہتی ہے۔حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے مساوات ِ مرد وزن کاعلم بلند کیا ۔اس نے کہا خدا کی نزدیک مرواورعورت دونوں برابر ہیں،اوران کی ناکامی وکامیابی کے اصول بھی ایک ہیں۔ایک مذہب اسلام ہی تو ہے ،جس نے عورت کو حقیقی اس کا مقام عطا ءکیا۔عورت معاشرے کی زینت ہے،عورت باعث سکون ہے،عورت جنت کی ضامن ،عورت وکیل ِ جنت ہے۔عورت ہی رحمت کا نشان ،عورت وفا کا پیکر،عورت عزت کامقام ،عورت حیا کامجسمہ،صبر کی چٹان ہے عورت،نسل انسانیِ کی داستان ہے عورت ،عورت ایک صداقت ہے،عور ت ایک نذاکت ہے۔قبل از اسلام عورت کومعاشرے کا فرسودہ ،ناکارہ وغیرضروری حصہ تصور کیا جاتا تھا۔عورت کو حقیر اورجانور سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا۔عورت کے جذبات ،احساس اور خواہشیات کو کچل دیا جاتا تھا۔اس کے حقوق پامال کرنا مرداپنا فرض سمجھتا تھا۔ عورت کوباوقتِ ضرورت ہی محسوس کیا جاتا تھا۔ عورت اورمرد کے درمیاں زمانہ قدیم سے جو فرق وامتیاز چلا آرہا تھا ۔بازاروں میں عورت کی سرعام خریدفروخت ہوتی تھی ۔اس کی کوئی مستقل حیثیت نہ تھی۔ اسلام نے اس کی محکومی کے خلاف اتنے زور سے آواز بلند کی کہ ساری دنیا اس سے گونج اٹھی اورآج کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ اس کی پچھلی حیثیت کوکوصحیح اور برحق کہہ سکے ۔اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت ورتبے کا ایک اعلی مقام عطا ءکیا اب آتے ہیں ”رائے عامہ©” کی جانب !
لاریب زھرا،طالب علم ،پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج مانسہرہ
عور ت معاشرے کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے۔اس کے بغیر زندگی کی گاڑی چلانا انتہائی مشکل ہے۔سب سے پہلے معاشرے میں عورت کی ذات کو حقیر سمجھا جاتا تھا ۔عورتوں پر ظلم وبربریت ایک رسم ِ دنیا بن چکی تھی ۔اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوجاتی ،وہ شرم کے مارے منہ چھپاتا پھرتا اورغم وغصہ سے دن رات گزارتا سب قبیلے والے اس کا مذاق اڑاتے طرح طرح کے طعنے دیتے ،جس کی وجہ سے وہ تنگ آکر وہ اپنی بیٹیوں سے نفرت کرتا،اوراپنی نفرت کی آگ بیٹیوں پر تشدد کر کے بچھاتا ،اوربعض لوگ تو بدنامی کے ڈر سے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے ۔عورت کے نہ کوئی حقوق تھے ،اورنہ عزت وتکرم،ان پر ظلم وستم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی گئیں ہیں،کہ تاریخ کے اوراق آج بھی چیخ چیخ کران کے مظالم بیان کرتے ہیں۔معاشرہ اور اسلام دو علیحدہ علیحدہ موضوع ہیں۔کیونکہ معاشرہ تو اسلام سے قبل بھی موجود تھا ۔عورت بھی پہلے ہی موجود تھی ،لیکن جو مقام معاشرے میں عورت کو اسلام نے دیا شایدہی کسی اور مذہب نے دیا ہومغرب میں عورت کو اپنے حقوق کےلئے ایک لمبی جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ اور روز اول سے ہی اسلام کی آمد عورت کےلئے غلامی،ذلت اورظلم وستم اورآزادی کا پیغام تھی۔ہمارے نبی کریمﷺ کی بدولت اسلام پوری دنیا میں پھیلا ،تو اس دین نے عورت ذات کو عزت بخشی ،اورہر روپ میں حقوق عطا کئے۔عور ت ذات کاہر رشتہ چاہئے وہ بیٹی ہے یا بیوی ،ماں ہے یا بہن ،ہرروپ میں عورت کومعزز اورعزت دار بنایا۔ ماں کے روپ میں عورت کا مقام ورتبہ بہت دلکش ہے اسلام نے عورت (ماںکے طور پر)کے قدموں تلے جنت عطا کردی۔آپ ﷺ نے سب سے زیادہ مستحق ماں کوقرار دیا۔وہ بیٹی جو اسلام سے پہلے باعث شرمندگی تھی اس کو رحمت قرار دے دیا۔بطور بہن عورت سے محبت کی ایک شاندار مثال قائم کردی ۔اسلام نے بیوی کو بہت سارے حقوق سے نوازا وراس کے تمام حقوق ادا کرنا مردکے لئے لازم قرار دیئے ہیں۔جس میں اس کے ساتھ اچھے طریقے سے حسن سلوک،نرمی،اورعزت واحترام سے پیش آنا بھی شامل ہے۔غرض یہ کہ عورت کا ہر روپ بہت ہی خوبصورت اورقابل ِ احترام ہے۔عور ت کامفہوم سمجھنے کے لئے انسان کو اپنی عقل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جتنا یہ لفظ گہرا ہے ،اتنا ہی عورت کی طرف سے دی جانے والی خدمات کی لمبی فہرست موجود ہے ۔اگر یہ کہاجائے کی دنیا کی اصل رونق ہی دراصل عورت ہی ہے ،تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا ۔کیونکہ انسان کو عظیم شخص جیسے ڈاکٹر،جج اور استاد بنانے میںعورت کا ایک ماں کے طور پر کردار نہایت اہماورنمایا رہا ہے۔دیگر مذاہب کاموازنہ اگرمذہب اسلام سے کیا جائے اس نتیجے پرانسان پہنچتا ہے ،نہ ہی اسلام جیسے حقوق جو عورت ذات کوملے ہیں نہ ہی پہلے کسی مذہب نے دئیے ہیں نہ کوئی اسلام جیسا مذہب ہے جس نے معاشرے میںعورت ذات کو ایک بلند مقام ورتبہ عنایت کیا
پروفیسر ساجد حسین ،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چوک اعظم
انسان کی تمدنی زندگی میں عورت کو مرکزی مقام حاصل ہے۔تخلیق ،تربیت ور پرورش اس کی فطرت کے اہم حصے ہیں۔اگر عورت کی تخلیق نہ کی جاتی شاید دنیا اتنی حسین نہ ہوتی ۔ہمارے ہاں واضح مثال حضرت
آدم ؑ کی ہے کہ انہوں نے ہر اس چیز یا نعمت کی موجودگی میںجوقدرنے انہیںوافر مہیا کی تھی،ایک ایسے ساتھی کے لئے اللہ تعالی سے درخواست کی تھی جوان کی تنہائی کودور کرسکے۔اللہ تعالی نے ایک عورت ہی کواس اہم ذمہ داری کا اہل سمجھا۔عورت اس وقت کائنات کی تصویر میں رنگ بھرتی ہے،جب وہ مہربان ماں،وفا شعار بیوی،ہمدرد بہن اور فرماں بردار بیٹی کے روپ میںجلوہ گر ہوتی ہے۔جب بیٹی ہوتی ہے
تو باپ کے لئے جنت کادروازہ کھلواتی ہے،جب بیوی بنتی ہے تو اپنے شوہر کاآدھا دین مکمل کرواتی ہے
اور جب ماں کے درجے پرفائز ہوتی ہے توجنت اس کے قدموں تلے رکھ دی جاتی ہے۔اور یہ اعلی مقام
ہمارے مذہب اسلام نے عورت کوعطا کیا ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اسلام نے مردوں کے برابر حقوق دیئے ہیں۔انہیںاظہارِ رائے اور اپنے متعلق فیصلے کرنے کاحق دیا ہے۔وہ مکمل فرد کی حیثیت سے معاشرتی اور معاشی معاملات میں برابر کی حصہ دار ہے۔تعلیمی عمل کا معاشرے سے گہرا ربط ہوناچاہیے ،اس لئے افراد معاشرے کاحصہ ہیں ،جب معاشرہ اپنے افراد کےلئے مناسب ماحول ،ضروری وسائل اورسہولیات بہم پہچائے ۔اور معاشرہ جواسلام کے سانچے میں جڑا ہوا ہو،جہاں عورتوںکی ناموس
اور تعلیم وتربیت واضح ہوتو ایسے معاشرے میںتعمیر ِتشکیل ہوتی ہے۔کہاں اسلامی اقدار وروایات پر عمل پیرا نہ ہوں ،تومعاشرہ بے راہ روی کاشکار ہوجاتا ہے۔تو پھرکائنات کی اس خوبصورت تخلیق سے اس کے حقوق چھین لئے جاتے ہیں،کاروکاری کر کے، تو کبھی سرعام بازار میںاس کی عزت پامال کی جاتی ہے۔
اسلام نے جو عورت کوحقوق عطا کیے ہیں ،آج مغربی معاشرہ اپنے حقوق کامتلاشی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ روئے زمین پر نوع انسان کی بقا ءکا سفرتنہا کسی ایک صف کے دائرہ ِ اختیارسے باہر ہے۔لہذا ہمارے معاشرے میںخواتین کی اہمیت سے انکار کا کوئی جواز نہیں۔اسلامی معاشرہ میں عورت ہرروپ اور ہر رشتہ میں عزت وقار کی علامت ،وفاداری اور ایثار کا پیکر سمجھی جاتی ہے ۔لہذانسل انسانی کی پرورش اور تربیت کےلئے عورتوں کو معاشرے میں اہم مقام ملنا چاہیے ۔یہ بات سچ جن اقدام نے اپنی خواتین کو
معزز جانا ،ان کااحترام کیا ،ان کے حقوق کی پاسداری کی ،اُن کے نام افق کی بلندیوںتک پہنچے ۔اگر ملک کوترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے ،اورترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونا ہے ،تو مردوں کے ساتھ ساتھ
عورتوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دینی ہوگی ۔اسلامی معاشرے میں ان کواچھے مواقع فراہم کرنے ہونگے ۔
تویہی نسل آگے بڑھ کر ملک کوسنوار سکے اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکے
الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا
اے ماو¿ں ،بہنو،بیٹیو دنیا کی زینت تم سے سے
ملکوں کی بستی ہوتمھیںقوموں کی عزت تم سے ہے۔
اور یہ اسلامی معاشرے کو کمال حاصل ہے ،کہ عورت اپنے آپ کو ہرماحول میں ڈھال دیتی ہے۔اگر حالات کہیں زیادہ بے بس اورافلاس کا شکار ہو، تو یہ ایک مرد کی طرح کام کاج کو ترجیح دیتی ہے،اوراپنی قسمت خود بنانے پر ڈٹ جاتی ہے،اوراپنی حالت پرشکوہ وشکایات سے دوری اختیار کرتی ھے۔،اور دوسری طرف کہیں آسائشات اورپرسکون زندگی کی مالک خواتین ”میرا جسم میری مرضی ”کا نعرہ لگاتی ہیں۔اور بہت (Liberal approach)کی مالک ہوتی ہیں جب کہ اسلامی معاشرہ میں جسم بھی اللہ کا مرضی بھی اللہ کی سمجھی جاتی ہے ۔اور اللہ پر یقین کامل کے ساتھ کامیابی وکامرانی ممکن ہوتی ہے۔ جاری

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.