پاکستان کے اہم شخصیت کو سزائے موت سنادی گئی

3 779

 

پاکستان کے اہم شخصیت کو سزائے موت سنادی گئی

 

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہنواز کو سزائے موت اور دس لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ عدالت نے اس مقدمے میں شریک ملزم اور شاہنواز امیر کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔اس کیس میں ملزمان شاہنواز امیر اور ان کی والدہ ثمینہ شاہ کو آج اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزمان کی موجودگی میں عدالت اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ اس موقع پر سارہ انعام کے والد انعام الرحیم اور فیملی کے دیگر اراکین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

 

 

عدالت نے ملزم سے وصول کردہ دس لاکھ روپے کا جرمانہ سارہ انعام کے والدین کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔مرکزی ملزم کو سزا سنانے جانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے سارہ انعام کے والد نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کی بریت کے فیصلے پر خوش نہیں ہیں اور وہ ہائیکورٹ میں اس کو چیلنج کریں گے۔کینڈین نڑاد پاکستانی خاتون سارہ انعام کو 23 ستمبر 2022 کو ا±ن کے شوہر شاہنواز امیر نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قتل کر دیا تھا۔مرکزی ملزم شاہنواز امیر پر 15 دسمبر 2022 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

پاکستان کی خاطر چین نے بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی

اس مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے مجموعی طور پر 19 گواہوں کو پیش کیا گیا۔اس مقدمے کے پراسیکیوٹر حسن عباس کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں واقعاتی شہادتوں اور فرانزک رپورٹس پر انحصار کیا گیا۔ جائے وقوعہ سے مقتولہ سارہ انعام اور ملزم شاہنواز کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے گئے تھے جو میچ کر گئے تھے۔قتل کے اس مقدمے کی سماعت کے دوران شاہنواز امیر نے اپنے دفاع میں کسی گواہ کو پیش نہیں کیا تاہم عدالت میں بیان دیتے ہوئے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قتل سے ایک رات قبل انھوں نے سارہ کے ہمراہ ڈنر کیا اور سو گئے اور جب وہ صبح اٹھے تو سارہ انعام باتھ روم گئی ہوئی تھیں، جس کے بعد وہ (شاہنواز) ایف ایٹ مرکز سے ناشتہ لینے گئے اور جب واپس آئے تو دیکھا کہ سارہ انعام کی لاش فرش پر پڑی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ؟

ملزم کا بیان
ملزم نے اپنے بیان میں یہ شبہ ظاہر کیا تھا کہ یا تو ان کی اہلیہ باتھ روم میں گرکر ہلاک ہوئی ہیں اور یا پھر کوئی نامعلوم شخص انھیں قتل کرکے فرار ہو گیا۔ملزم شاہنواز نے اپنے بیان میں یہ بھی مو¿قف اختیار کیا تھا کہ چونکہ ا±ن کے والد (ایاز امیر) ایک سیاسی شخصیت ہیں اس لیے انھیں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے ا±ن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ پولیس نے سارہ انعام قتل کیس میں تفتیش کی غرض سے ملزم کے والد ایاز امیر کو بھی گرفتار کیا تھا تاہم دو روز تک حراست میں رکھنے کے بعد انھیں عدالتی حکم پر رہا کر دیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں ایاز امیر کی بریت اس بنیاد پر ہوئی کہ وہ وقوعہ کے روز چکوال میں تھے

وڑ گیا سے شہرت حاصل کرنے والے شیر افضل مروت گرفتارہوگئے

اور دوسرا یہ کہ انھوں نے اس واقعہ سے متعلق پولیس کو مطلع کیا تھا۔اس مقدمے کے پراسیکیوٹر حسن عباس کے مطابق اس مقدمے میں مرکزی ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ بھی ملزم تھیں۔ تاہم ان کا کردار ملزم کی سہولت کاری کرنے اور حقائق کو چھپانے کی حد تک ہے۔گرفتاری کے بعد متعلقہ عدالت نے ثمینہ شاہ کی اس مقدمے میں ضمانت منظور کر لی تھی اور انھیں حاضری سے بھی استثنیٰ دے دیا تھا تاہم ملزمہ نے بھی اپنا بیان عدالت نے ریکارڈ کیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 22 نومبر کو رات اکھٹے کھانا کھا کر سو گئے اور جب وہ صبح اٹھیں تو ان کے بیٹے شاہنواز نے انھیں بتایا کہ سارہ انعام قتل ہو گئی ہیں۔اس مقدمے کے پراسیکیوٹر کے مطابق مقتولہ سارہ انعام کا جب 23 ستمبر کو پوسٹمارٹم کیا گیا تو پوسٹمارٹم رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقتولہ کی موت کو 12 سے 24 گھنٹے کا وقت گزر چکا ہے۔تھانہ شہزاد ٹاون پولیس کے مطابق ثمینہ شاہ نے وقوعہ کے بعد پولیس کو جو بیان دیا تھا اس کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق ثمینہ شاہ نے پولس کو بتایا تھا کہ اس کے بیٹے شاہنواز نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا ہے۔

 

 

واقعہ کیسے پیش آیا تھا؟
پولیس کے مطابق سارہ انعام کے قتل کا یہ واقعہ 23 ستمبر بروز جمعہ صبح 10 سے 11 بجے کے درمیان پیش آیا تھا۔ اس مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق قتل کی اس واردات کی اطلاع ملزم شاہنواز کی والدہ ثمینہ شاہ نے پولیس کو دی تھی۔اطلاع ملنے پر پولیس چک شہزاد میں واقع فارم ہاو¿س پہنچی تو ملزم نے پولیس کو دیکھتے ہی خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا تاہم پولیس نے کمرہ کھلوانے کے بعد ملزم کو قابو میں کر لیا تھا۔

 

ایف آئی آر کے مطابق جب ملزم کو کمرے سے نکالا گیا تو ا±ن کے کپڑوں پر خون کے دھبے موجود تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے ابتدائی تفتیش میں پولیس کو بتایا کہ انھوں نے لڑائی کے دوران اپنی اہلیہ سارہ انعام کے سر پر ڈمبل مارا اور بعدازاں ان کی لاش کو واش روم میں چھپا دیا۔ایف آئی آر میں یہ بھی درج ہے کہ ملزم نے آلہ قتل یعنی ڈمبل بھی خود برآمد کروایا جس پر انسانی خون اور بال لگے ہوئے تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے ڈمبل کے متعدد وار کر کے اپنی اہلیہ کا قتل کیا۔

 

 

سارہ انعام کون تھیں؟
صحافت نیوز نے سارہ انعام کے دوستوں، چچا (جو ا±ن کے قتل کیس میں مدعی مقدمہ بھی ہیں) اور رشتہ داروں سے بات کی ہے تاکہ ا±ن کی تعلیم اور کیریئر کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکیں۔حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق سارہ انعام نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو سے سنہ 2007 میں آرٹس اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یونیورسٹی آف واٹر لو کو دنیا بھر میں اکنامکس کی تعلیم کے لیے بہتر تعلیمی اداروں میں سمجھا جاتا ہے۔تعلیم مکمل ہونے کے بعد سارہ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جونیئر ایویلیوئیشن افسر کی حیثیت سے کینیڈا ہی سے کیا تھا۔سنہ 2010 میں انھوں نے ابوظہبی میں بزنس کنسلٹینسی کی کمپنی ’ڈیلوئیٹ‘

پاکستان کس چیز میں دنیا سے سب سے آگئے ہے

میں شمولیت اختیارکر لی جہاں وہ چار سال تک بحیثیت کنسلٹنٹ اور بعدازاں سینیئر کنسلٹنٹ خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ اس نوکری کے بعد انھوں نے ابوظہبی کے ادارے ’ایجوکیشن اینڈ نالج‘ میں شمولیت اختیار کی۔یہاں ملازمت کے دوران انھوں نے ابوظبہی میں ’تعلیم ہر بچے کے لیے‘ جیسے بڑے منصوبے پر کام کیا اور اسی منصوبے کے تحت پہلی مرتبہ ایک چارٹرڈ سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔سنہ 2021 میں سارہ نے ابوظہبی کے ہی معیشت سے متعلقہ ادارے میں شمولیت اختیار کر لی جہاں ان کی بنیادی ذمہ داری سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسیاں ترتیب دینا تھا۔سارہ انعام کی دوست سارہ دناوی نے ماضی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب ا±ن کی سارہ انعام سے ملاقات ہوئی تو وہ ا±س وقت اپنا مستقبل بہتر بنانے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔ ’وہ اپنی زندگی میں ناصرف خود کامیاب ہوئیں بلکہ انھوں نے کئی دوستوں کو بھی بہتر مستقبل کی تعمیر کے مواقع فراہم کیے۔‘

 

 

سارہ انعام کے والدین نے مرکزی ملزم کو سزائے موت سنائے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران ملزم سے آلہ قتل ڈمبل بھی برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے زیر استعمال موبائل فون بھی برآمد کیا، جس میں مقتولہ کی زندگی میں اور ان کی ڈیڈ باڈی کی تصاویر بھی برآمد کر لیں۔ اس کے علاوہ مقتولہ کے زیر استعمال موبائل بھی ملزم کی نشاندہی پر برآمد کیا گیا۔تفتیشی افسر کے مطابق ملزم شاہنواز اور سارا انعام نے پسند کی شادی کی تھی اور دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ مقتولہ یہ چاہتی تھیں کہ ان کی باقاعدہ طور پر رخصتی ہو کیونکہ مقتولہ کے گھر والے اس شادی پر راضی ہو گئے ہیں، جس پر دونوں میں تکرار شروع ہوئی۔تفتیشی افسر کے مطابق ملزم نے مقتولہ کو واٹس ایپ میسج پر طلاق دے دی تھی،

آسٹریلیا جانے کے خواہش مند افراد کیلئے بُری خبر

جس کی تصدیق ملزم کے زیر استعمال موبائل فون کی فرانزک رپورٹ اور اس موبائل کے ریکارڈ سے وہ وائس میسج بھی مل گیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی۔پولیس کے بقول سارہ انعام 22 ستمبر 2022 کو اسلام آباد آئیں اور دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد ملزم نے ایکسرسائز کرنے والے ڈمبل سے حملہ کر کے سارا انعام کو قتل کر دیا۔تفتیشی افسر کے مطابق ملزم کے موبائل سے سارہ انعام کی لاش کی وہ تصویر بھی برآمد کی تھی جو انھوں نے اپنے والد ایاز امیر کو بھیجی تھی جس کے نیچے انگریزی میں لکھا ہوا تھا ’بابا کیا میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دوں؟‘

You might also like
3 Comments
  1. […] پاکستان کے اہم شخصیت کو سزائے موت سنادی گئی […]

  2. […] پاکستان کے اہم شخصیت کو سزائے موت سنادی گئی […]

  3. […] پاکستان کے اہم شخصیت کو سزائے موت سنادی گئی […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.