انسانیت سے بڑھ کراورکیا ہے

0 231

فلاحی ادارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے کسی ملک یا کسی علاقے میں جب حکومت یا مقامی نمائندے عوامی فلاح و بہبود کے معاملات کو نظرانداز کرے تو یہ ادارے معاشرے میں بسنے والے ان لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ فلاحی تنظیمیں معاشرے کا روشن چہرہ ہیں۔ تاریخ کی اولین داستانوں سے لے کر موجودہ دور تک ایسے کئی ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنتے ہیں اور عوام الناس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرتے ہیں۔یہ ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان اداروں کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ فلاحی اداروں کا موجودگی ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرنے میں اہم کردار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں بھی بے شمار فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔ان اداروں کی تشکیل کے پیچھے کسی نا کسی شخص کا ایک خواب یا کوئی داستان چھپا ہوتا ہے جو ان کے قیام کی وجہ بنتی ہیں۔ مختلف ممالک میں یہ فلاحی ادارے صحت، تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور خوراک کی تقسیم جیسے عظیم مقاصد پر کام کر رہے ہیں جو درحقیقت حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان فلاحی اداروں سے منسلک افراد دن کی روشنی ہو یا رات کی اندھیری ہو یا بارش یا وبائی امراض ہوں، یہ بہادر لوگ کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئی صرف انسانی خدمت کو یاد رکھتے ہیں اور خدمت و فلاحی کاموں کو اہمیت دیتے ہیں اور خدمت کے کاموں کو عملی طور پر جاری رکھتے ہیں تاکہ دکھی انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکیں۔۔ سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچانے والے ہوتا ہے۔ جس کو انسانیت سے پیار ہو تو ان کو ہر چیز سے ہی پیار ہوتی ہے۔ لوگ اکثر یہی کہتے ہیں کہ انسانت مرچکی ہے مگر نہیں یہ تو غلط تصور ہے۔اگر بات انسانیت کی ہورہی ہو تو وہاں انسان دوستوں کی بات کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ انکے مسیحاو¿ں کے بات کئے بغیر حقیقت سامنے نہیں آتی ہے۔میں دو ایسے چمکتے دمکتے مسیحاو¿ں کی آپ سے تعارف کرانا چاہتا ہوں جو وڈھ سب اورناچ سےتعلق رکھتے ہیں یہ دونوں نوجوان برادر ہیں۔ان کا تعلق بلوچستان کے ایک انتہائی پسماندہ ترین علاقے سے ہے۔ لیکن ان کی سوچ شاشان کی طرح سخت بلند و بالا ہے جو کراچی میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنے مستقبل کو سدھارنے کےساتھ ساتھ ان لاچار غریبوں کی زندگی کو سنوار نے اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں جن کے کوئی سہارا نہیں ہے سوائے خدا کے۔ عبدالصمد بروھی اور عبدالسلام گرگناڑی یہ دونوں بھائیوں کو انسانت سے اتنی محبت ہے کہ کوی ان کو بیان نہیں کرسکتا۔ اس دور جدید میں ہرکوئی اپنے ہی میں ڈوبا ہوا ہے تو اس دور نازک میں اگر کوی انسانت کےلے کام کریں کسی فرشتے سے کم نہیں۔ عبدالسلام گرگناڑی گزشتہ تین سال سے ایک فاو¿نڈیشن میں کام کررہا ہے۔ وہ ایسی علاقوں میں جاکر ان لوگوں کےلے پانی کا بندوبست کرلیتا ہے جہاں جانے کےلے کسی نے اب تک سوچا نہیں۔عبدالسلام گرگناڑی لوگوں کو صاف پانی مہا کرنے کے ساتھ ساتھ، دوران سیلاب کے دوران ان غریب نادار گھرانوں میں راشن اور کپڑوں کے ساتھ دیگر ضروریات کے سامان بھی تقسیم کئے جن کے چھولے آگ کےلیے ترس رہے تھے۔ عبدالسلام گرگناڑی الفلاح فاو¿نڈیشن میں کام سر انجام دےرہے ہیں حالیہ ہونے والے سیلابوں کے بعد
بلوچستان اور خاص کر وڈھ میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں جس میں خسرہ۔ٹایفایڈ، ملیریا،گیسٹرو وغیرہ شامل ہیں۔ اسی سلسلے میں عبدالسلام گرگناڑی اور اس کی ٹیم الفلاح فاو¿نڈیشن کے ملکر الفتح فاو¿نڈیشن سے معاونت طلب کی کہ بلوچستان اور وڈھ کے دور دراز علاقوں میں میڈیکل کیمپس قائم کیا جائے۔جوکہ الفتح فاو¿نڈیشن سے اپیل قبول کرتے ہوے جنوری کے تین تاریخ سے اب تک وڈھ اور اورناچ کے آٹھ مقامات پر فری میڈیکل کیمپس قام کی ہے۔ عبدالسلام گرگناڑی کا کہنا ہے کہ اس وڈھ آٹھ مقامات پر کیمپس قام کرچکے ہیں جس میں رغماس اورناچ، تیورو کنڈ اورناچ، اورناچ سٹی، کلی علم خان ، سرداری بہٹ اورناچ ، ڈھاٹ اورناچ، کلی حاچی ہاشم گرگناڑی دراکھالہ وڈھ، اور حاجی شکرخان مینگل دراکھالہ وڈھ شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ روزنہ 350سے 400کے قریب مریضوں علاج مفت کیا جاتا ہے۔ ابتک 3250 مریضوں کا علاج ہوچکے ہیں اور ادویات بھی بڑی مقدار میں مریضوں کو مہیہ کرچکے ہیں۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ ضلع خضدار میں کے تیس مقامات پر فری میڈیکل کیمپس قام کریں گے۔ جس سے ان غریبوں کوفادہ ہوگا جو اس دور مہنگائی میں وہ بازاروں میں اپنی اچھی علاج نہیں کر سکتے ہیں۔ ہماری کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ ہم ان علاقوں میں پہنچے اور اپنا کیمپ قام کریں جہاں کے لوگوں کی رسائی شہروں تک نہیں اوراپنی علاج نہیں کرسکتےہیں۔ عبدالسلام گرگناڑی کا اس چھوٹی عمرمیں لوگوں کی ہر غم کو سمجھ نے کی صلاحت موجود ہے جو ہر انسانی کی مجبوری سمجھ سکتا ہے۔وہ کہے رہے تھے کہ میں اور میری ٹیم نے ہمیشہ انسانت کے بارے میں سوچھ کر ان کی مدد کررہے ہیں کبھی لالیچ کے بنیاد پرکسی کی مدد نہیں کی۔ جب کسی شخص میں انسانت پیدا ہو اور وہ کبھی
مذہب اور فرقہ نہیں دیکھتا تو اس ہی کو ہی انسانت کہتے ہیں۔میں جب وڈھ اور اورناچ کے مختلف علاقوں میں پروجکٹس شروع کی تو میری اور میری ٹیم کی خواہش یہی تھی کہ سب سے پہلے کام پانی کا ہے جو لوگ دور دراز علاقوں سے پانی لانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ہم نے پہلا کام پانی سے ہی شروع کی۔ جب ہم نے کام کا آغاز کیا تو ہمیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔کوی بھی کام کا شروع کرنے سے پہلے اس میں دشواری ضرور ہوتی ہے مگر ہم نے ان مشکلات کا سامنا کرکے آج ایک اچھی پوزیشن پر آکر لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔ بنا رنگ و نسل کے انسانیت کی حرمت کی خاطر اپنی ہی بساطت کی مطابق خدمت کررہے ہیں

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.