بھکاری اور بے روزگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ فرید
ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے بڑے وسائل سے نوازا اور قدرتی دولت سے مالا مال فریا ۔ مگر بدقسمتی سے پون صدی گزرنے کے باوجود ہمارے حکمران عوام کی فلاح بہبود کیلیے کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی نہ کر سکے ، جس کے باعث ہم بےوزگاری کی دلدل میں۔اِس قدر دھنس گئے ہیں کہ نوبت بھکاری بنے پر آگئی ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان میں بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی کی پیش گوئی کردی ، آئی ایم ایف نے گزشتہ سال کے مقابلے معاشی شرح نمو میں اضافے کی بھی پیش گوئی کی ہے،آئی ایم ایف کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے اور بجٹ خسارے میں کمی کی توقع ہے،آئی ایم ایف نے اخراجات، محصولات اور گرانٹس میں اضافے کا امکان ظاہر کردیا .
ہمارے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے کہاہے کہ رواں مالی سال پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح 18.5فیصد رہنے کا امکان ہے،گزشتہ مالی سال پاکستان میں اوسط مہنگائی 29.4فیصد تھی ،آئی ایم ایف کا مزید کہنا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 8فیصد رہنے کی توقع ہے،گزشتہ مالی سال پاکستان میں بیروزگای کی شرح 8.5فیصد تھی .
اسی طرح رواں مالی سال بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 7.6فیصد رہنے کا امکان ہے،رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 1.6فیصد تک ہو سکتا ہے،گزشتہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.7فیصد تھا .
قوم کو بھاکری بنانے میں حکمرانوں نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔
پاکستان میں بھکاریوں سے متعلق حیران کن حقائق سامنے آِے ہیں جن کے مطابق 24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6 فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں.
ان بھکاریوں کا 50 فیصد کراچی، 16 فیصد لاہور، 7 فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے.
کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور اسلام آباد میں 950 روپے ہے.
پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850 روپے ہے.
روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں.
سالانہ یہ رقم117 کھرب روپے بنتی ہے
ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42 ارب ڈالر بنتی ہے.
بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر انکی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42 ارب ڈالر نکل جاتے ہیں.
اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کے لئے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی.
جبکہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدنی 38 ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا کرسکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کے لئے باعزت روزگار بھی مہیا کرسکتی ہے.
اب اگر عوام اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دیکر مطمئن ہیں تو بیشک اگلے سو سال اور ذلت میں گزارئیے.
لیکن ، اگر آپ چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کے لئے پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو خداحافظ کہہ دیجیے. پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر انشاللہ نادم نہیں ہونگے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کرینگے.
بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا تھا، اسکے صرف چار سال بعد اسکے پاس 52 ارب ڈالر کے ذخائر تھے.
کیا ہم اچھی بات اور مستند کام کی تقلید نہیں کرسکتے.
اب اپنے بچوں کے لئے فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے…
کیا ہمارے ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو پائے گا ؟
کیا ہمارے ملک کو بھکاریوں سے نجات مل سکے گی ؟
اِس سوال کا جواب شاید آنے والے قومی انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی قائدین بھی نہ دے پائیں ۔
اک خواب ہے سرہانے رکھا ہوا ۔۔۔۔
اب تو آنکھ کی بصارت بھی کھو گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🔻⚫🔻۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔