“پہاڑوں کا بیٹا پہاڑوں میں کھو گیا”

0 240
گلگت بلتستان کے شہر سکردو کے قریب ایک گاوں آتا ہے جس کا نام ست پارہ(سدپارہ) ہے۔ ست پارہ گاوں کے قریب دنیا کی دوسری بلند و بالا چوٹی کے ٹو موجود ہے۔ ست پارہ گاوں میں ایک ایسا نڈر بچہ پیدا ہوا جو بچپن ہی سے ان پہاڑوں سے عشق رکھتا تھا۔ اس بچے کا نام محمد علی سدپارہ رکھا گیا۔ محمد علی سدپارہ 2 فروری 1976 کو پیدا ہوئے۔
سدپارہ گاوں کے لوگ انگریز کوہ پیماوں کے کولی بن کر چند ڈالر لیکر اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ کوہ پیمائی محمد علی سدپارہ کے خون میں شامل تھی اور ا ±سے ان بلند و بالا پہاڑوں سے بے پناہ لگاو تھا۔ علی سدپارہ 2016 میں ا ±س ٹیم کا حصہ تھے جنہوں نے سردیوں میں نانگہ پربت جیسی خطرناک چوٹی کو سر کیا۔ کے ٹو پہاڑ کی اونچائی 8611 میٹر ہے یہ اونچائی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے لیکن سب سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا چوٹی کا اعزاز کے ٹو کے پاس ہے کیونکہ کے ٹو پر جانے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
علی سدپارہ نے آٹھ ہزار میٹر کی کل آٹھ چوٹیاں سر کی ہوئی تھی۔ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ کے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ سر کر چکے ہیں۔ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کا عزم لیے 2 فروری کو محمد علی سدپارہ اپنی سالگرہ منانے کے بعد اپنے ساتھیوں آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے جون سنوری اور چلی کے جے پی موہر کے ہمراہ نکل پڑے۔ 5 فروری کو محمد علی سدپارہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کے ٹو کے بوٹل نیک کے مقام یعنی موت کی گھاٹی پر لاپتہ ہوئے۔ علی سدپارہ کے ساتھ ا ±ن کا 21 سالہ بیٹا ساجد سدپارہ بھی تھا لیکن آکسیجن سلینڈر میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے ساجد سدپارہ واپس نیچے کیمپ میں آگیا اور اپنے والد کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن افسوس کہ وہ پھر واپس نہیں آیا۔ محمد علی سدپارہ کے ٹو کی خوبصورتی میں اتنا کھو گیا کہ واپس پلٹ کر ہی نہیں آیا۔ وہی پہاڑ ، وہی وادی جہاں پر انہوں نے اپنی زندگی گزاری انہی وادیوں کی آغوش میں ہمیشہ کیلئے کہیں سو گیا۔ محمد علی سدپارہ کی واپسی کیلئے قوم نے بہت دعائیں مانگی لیکن پہاڑوں کا شہزادہ پہاڑوں کا ہو کر رہ گیا۔
لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر پہاڑ ہی کیوں سر کیے جائیں ؟ لاکھوں روپے خرچ کر کہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا یہ کونسا طریقہ ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ پہاڑ سر کرنے والے ہمت و حوصلے کے نمائندے ہوتے ہیں۔ کامیابی و کامرانی سے بہت دور انسانی پہنچ اور ممکنات کے نئے زاویے کھرید رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سپر نارمل ہوتے ہیں، ہم جیسے نارمل چونکہ ویسا نہیں کر سکتے، نہ ہی ویسا سوچتے ہیں۔
محمد علی سدپارہ جیسے قومی ہیروز پر لفظوں کے مجاہدین کی طرف سے تنقید ہورہی ہے کہ کیوں فضول میں جان خطرے میں ڈالی ؟
کے ٹو اور اِس جیسی بڑی چوٹیاں سر کرنے کیلئے حکومتِ پاکستان سے باقائدہ پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ یہ کوہ پیما کسی بھی بڑی چوٹی کو سر کرنے کیلئے ہفتوں مہم جوئی کرتے ہیں اور اپنا جسم و دماغ اس ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سات آٹھ ہزار میٹر بلندی پر یہ بھرپور تیاری کر کے جاتے ہیں۔ کے ٹو کی چوٹی پر گرمیوں میں بھی منفی 20 ڈگری تک سردی ہوتی ہے اور سردیوں میں درجہِ حرارت منفی 50 سے 60 تک چلا جاتا ہے۔ یہ اتنی سردی ہوتی ہے کہ اگر ان کے جسم کا کوئی بھی حصہ حفاظتی جیکٹ سے باہر نظر آجائے تو جسم کا وہ حصہ سردی سے پھٹ جاتا ہے۔ منفی 50 میں اتنی بلندی پر اکثر کوہ پیما حواس باختہ ہوجاتے ہیں ا ±ن کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات ا ±نہیں اتنی اونچائی پر اپنے رشتہ داروں اور اپنی سوچ کی پرچھائی بھی نظر آجاتی ہے۔
کوہ پیماوں کے سوشل میڈیا پر ہزاروں لاکھوں فالوورز ہوتے ہیں۔ محمد علی سدپارہ اور اس ان جیسے کئی قومی ہیروز کی وجہ سے پاکستان کا نام دنیا میں روشن ہوا ہے۔ علی سدپارہ اپنی جان داو پر لگا کر اس ملک کو کتنا کچھ دے گیا ہے۔
آج کے دور میں اکانومی جدید ہو چکی ہے۔ روٹی ، کپڑا اور معدنیات بیچنے سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ آج کے دور میں دنیا اپنے ہیروز کو برانڈ کرتی ہے۔ پاکستان کے شعیب اختر اور بھارت کے ایک سچن ٹنڈولکر نے کرکٹ کو کتنا بدل کر رکھ دیا۔ ان جیسے ہیروز کی وجہ سے لوگوں میں اعتماد بھر آیا۔ کرکٹ کے دم پر پاکستان اور بھارت نے کتنی قومی آمدنی پیدا کی ہم اسکا حساب ہی نہیں لگا سکتے۔
کیا کبھی کسی نے یہ شکایت کی کہ چپٹے پاوں والے شعیب اختر نے دنیا کی تیز ترین گیند کیوں پھینکی یا سچن ٹنڈولکر کی سنچرویوں کا کیا فائدہ ہوا ؟
شعیب اختر اور سچن ٹنڈولکر نے اپنی جان داو پر نہیں لگائی لیکن سدپارہ نے ضرور لگائی ہے۔
رائٹ برادران نے اپنے ا ±ڑنے کے خواب اور شوق کے ہاتھوں پہلا جہاز بنایا اور اپنے اِسی جذبے کو پورا کرنے کی کوشش میں مارے گئے۔ تھامس ایڈیسن نے 9999 ناکام تجربے کرنے کے بعد بلب بنایا۔ اگر تھامس ایڈیسن بیچ میں ہی ہمت ہار جاتے تو شاید آج ہم یہ تحریر بھی نا پڑھ رہے ہوتے ، شاید ہم آج کے دور سے بہت پیچھے ہوتے۔ ہماری سوچ کا معیار کافی مختلف اورغیر ترقی پسند ہوتا۔
آپ میں سے اکثر لوگوں نے “الکیمسٹ” ضرور پڑھا ہوگا۔
جس میں ایک چرواہا اپنے خوابوں پر یقینِ کامل رکتھے ہوئے اندلس سے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا اور افریقہ کے ساحل پر اپنی جمع پونجی سے محروم ہوا اور بعد میں ایک کیمائ گر نے ا ±س کی رہنمائی کی اور پھر وہ دنیا کے سب سے بڑے خزانے تک پہنچا۔
اصل کہانی یہ ہے کہ ہر روز امید کا نیا سورج طلوع ہوتا ہے اور ہر روز ایک نیا دن ہوتا ہے۔ زندگی میں ہر انسان کو کوئی نہ کوئی دیوار پھاندنی پڑتی ہے، کوئی نہ کوئی اپنے حصے کی چوٹی سر کرنی پڑتی ہے۔ اِسے سر کرنے کی کوشش میں رستے میں مرنا پڑتا ہے یا پھر ا ±سی چوٹی کے دامن میں آشیانہ بنانا پڑتا ہے۔
پہاڑوں کا م ±رشد ایڈمنڈ ہیلری جو کہتا تھا کہ دراصل ہم پہاڑوں کو نہیں اپنے آپ کو ، اپنے ڈر کو تسخیر کرتے ہیں۔
اپنے ہاں ہیروز عموماً وہ ہوا کرتے ہیں جو وطنِ عزیز پر جانیں نچھاور کر گزرے لیکن اب یہ نیا آغاز ہو رہا ہے جہاں ہیروز سدپارہ ہونگے۔ کوئی مخلص استاد، کوئی فائر فائیٹر، کوئی اپنی محنت و لگن سے لوگوں کی جانیں بچانے والا ڈاکٹر تو کوئی ایسا بے باک نڈر صحافی جو معاشرے کی اصلاح کرنے نکلا ہو یہ ہمارے ہیروز ہونگے۔
محمد علی سدپارہ نے کے ٹو میں ڈھیرا جما لیا لیکن ہم آج ا ±ن کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ پانچ ، چھ فٹ کا انسان اٹھائیس ہزار فٹ کے پہاڑ سے بڑا ہوسکتا ہے۔ محمد علی سدپارہ نے اپنا نام تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے امر کردیا۔
You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.