ڈیپریشن کیوں کر معاشرے کا ناسور ہے

0 458

گزشتہ ماضی قریب کسی حد تک انسانوں کا ایک حسین خواب تھا جس میں ہر شخص اپنی ایک محدود زندگی گزار رہا تھا اپنی ذات ، گھر یا اپنا محلہ و بستی ہی اس انسان کے لئے پوری دنیا تھی جس میں وہ خود کو ایک کامل سماجی ورکر سمجھتا تھا ایک مطمئن و پر سکون اور ایک کامیاب زندگی گزار رہا تھا تعلق جس قدر محدود رہے اس قدر انسان دنیا کے جھنجھٹوں سے عافیت میں رہتا ہے ماضی کے مقابلے میں آج کا انسان ایک ڈیجیٹل انسان بن چکا ہے دنیا انکے سامنے ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے جو کبھی اپنے ولیج تک محدود تھا آج اسی انسان نے پوری دنیا کو ولیج بنا لیا جس میں تعلقات و اثر رسوخ کی کوئی حد نہیں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلا جا رہا ہے جانے انجانے فرینڈ لسٹ میں شامل ہو چکے بٹن دبانے کی دیر میلوں دور بیٹھے شخص کی بات بھی آج کے انسان پہ اثر انگیز ہے ماضی کے مقابلے میں موجودہ انسان ایک ڈیپریشن بھری زندگی گزار رہا ہے پوری دنیا کی ٹیشن آج کے انسان کے سرپہ سوار ہے آج ہمیں اپنے گھر کے علاوہ محلہ، بستی،گاوں ،شہر ، ملک یہاں تک کہ امریکہ تا چین سب کی ڈیپریشن کھائے جا رہی ہے کون کیوں اور کیسے میں شب وروز زمانے کی چکی میں پس رہے ہیں موجودہ انسان نے دولت و ثروت کے انبار جمع کر لئے شہرت اتنی کہ انسانی عقل ورطہ حیرت میں دنگ رہ جاتی ہے باوجود اس کے آج کا انسان ماضی کے انسان کے مقابلے میں بھاری ڈیپریشن کا شکار ہے معلوم ہوا سکون و اطمینان کہیں اور ہے رب کریم کا فرمان ہے
خبردار دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے (پارہ تیرہ )
اسی طرح ارشاد خداوندی ہے
جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا ہم اس کا رزق تنگ کر دیں گے (پارہ سولہ )
بظاہر دنیا کی چمک و دمک اور دولت کی شوخی انسانی جسم پہ نظر آتی ہے جو کہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے مگر ایسا انسان آج سکون ربانی سے محروم اور ایک درد بھری کیفیت و اذیت میں مبتلا ہے اندر سے کھوکھلا و جمود اختیار کر چکا ہوتا ہے جہاں سے اسکا سفر شروع ہوا وہیں پہ رک کر ضمیر یہ آواز دیتا ہے
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
دو مثالیں پیش خدمت ہیں فوربز کے مطابق بل گیٹس دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ان کی کل دولت 124 ارب کے قریب ہے۔
حال ہی میں بل گیٹس کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی ستائیس سال کے تعلق اور تین بچوں کے والدین بننے کے بعد وجہ یہ بنی کہ اب ہم ایک ساتھ رہ کر ترقی کا سفر طے نہیں کر سکتے اس لئے ہم جدا ہونا چاہتے ہیں ترقی کی کونسی منازل طے کرنا باقی ہیں جس کی وجہ سے یہ جوڑا الگ ہوا ؟
اسی طرح ڈاکٹر عامر لیاقت جس نے پاکستانی میڈیا پہ راج کیا جس کی شہرت اوج کمال کو پہنچی وہ شخص جو کبھی پروانے کی شمع تھا جو کبھی محفل میں صدر محفل تھے جس کی عدم موجودگی مجالس کو بے صوت کر دیتی تھی جو عوامی امنگوں کا بادشاہ تھا آج یہی ڈیجٹل انسان اختتام کو پہنچا تو صرف ڈیپریشن اور بے قراری کی وجہ سے پہنچا صدر محفل ،شمع پروانہ ، اور وجود مجلس نے ویرانے و تنہائی میں سسک سسک کر اپنی موت کو گلے لگا لیا کروڑوں چاہنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کی داد رسی نہیں کی کوئی بھی اس دولت مند و شہرت کے مالک کو گلے نہ لگا سکا
بشیر بدر لکھتے ہیں
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
شاعر لکھتا ہے
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا
یاد الہی ہی انسان کو کامیابی کے زینے پہ سوار کر سکتی ہے بیشک معتدل کمائیں مگر سکون و اطمینان ہی اصل زندگی ہے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.