حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

0 207

حضرت عمار بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے والدماجد حضرت یاسر اور والدہ ماجدہ حضرت بی بی سُمَیَّہ اور بھائی حضرت عبداللہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سمیت ” دین اسلام کی دولت سے فیضیاب ہوئے(طبقات ابن سعد،ج 3،ص186)عمار بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مقدس گھرانا غلامی کی زندگی بسر کررہا تھا اس لئے کفارِ قریش پورے گھرانے کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف دینے لگے، حضرت بی بی سمیہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا ایک نِڈر اور بہادر خاتون تھیں ایک مرتبہ ابو جہل نے گالیاں بکتے ہوئے حضرت بی بی سمیہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لَت پَت ہو کر گرپڑیں اور اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔(تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص 367) پھر والد ماجد حضرت یاسر اور بھائی حضرت عبد اللہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُمَا بھی کفار و مُشرکین کا ظلم و ستم سہتے سہتے جام ِ شہادت سے سیراب ہوکر اَبدی میٹھی نیند سو گئے۔(الاصابہ،ج6ص500)
جاں نثار، وفادار اور فرمانبردار صحابی رسول حضرت سیّدنا اَبُو الیَقظان عمار بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ فرماتے ہے کہ
ایک مرتبہ ہم نے دورانِ سفر کسی جگہ پڑاو¿کیا تو میں نے اپنا مشکیزہ اٹھایا اور پانی بھرنے کےلئے چل پڑا، مجھے دیکھ کر نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہ وسَلَّم نے فرمایا: کوئی تمہارے پاس آئے گا اور پانی بھرنے سے روکے گا۔ جب میں کنویں کے قریب پہنچا توایک کالا کلَوٹا شخص بڑی تیزی سے میری جانب لپکا اور کہنے لگا: جب تک کوئی گناہ نہیں کروگے میں پانی نہیں بھرنے دوں گا، یہاں تک کہ ہم دونوں میں لڑائی شروع ہوگئی اچانک میں نے اس کوپچھاڑ دیا اور قریب پڑا ہوا پتھر اٹھاکراس پر دے مارا جس کی وجہ سے اس کی ناک ٹوٹ گئی اور چہرہ بگڑ گیا، اس کے بعد مشکیزے میں پانی بھرا اور بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہ وسَلَّم میں حاضر ہوگیا، پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہ وسَلَّم نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا؟ میں نے عرض کی: جی ہاں! اور پورا قصہ گوش گزار کردیا، ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ کون تھا؟ عرض کی: جی نہیں، فرمایا: وہ شیطان تھا۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص190 ماخوذاً)
ان مقدس حضرات کی شہادت کے بعد بھی کفارِ مکہ کو حضرت عمار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ پر رحم نہ آیا کبھی ایمان سے لبریز سینے پر بھاری پتھر(Stone) رکھ دیتے تو کبھی پانی میں غوطے دے کر بے حال کردیتے اور کبھی آگ سے جسم داغدار کرکے نڈھال کر دیتے تھے۔(الکامل لابن اثیر،ج 1،ص589) یہاں تک کہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پیٹھ مبارک ان زخموں سے بھر گئی، بعد میں کسی نے آپ کی پیٹھ کو دیکھا تو پوچھا: یہ کیسے نشانات ہیں؟ ارشاد فرمایا: کفارِ قریش مجھے مکہ کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر ننگی پیٹھ لٹاتے اور سخت اذیتیں اور تکالیف پہنچاتے تھے، یہ ان زخموں کے نشانات ہیں۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص188) فضائل و مناقب: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی قربانیوں کے صِلے (Reward)میں بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہ وسَلَّم سے ملنے والے چند انعامات دیکھئے: جنت عمار کی مُشتاق ہے۔ (ترمذی،ج 5،ص 438، حدیث:3822) جس نے عمار سے بغض رکھا اللّٰہ تَعَالٰی نے اسے مبغوض رکھا۔(مسند امام احمد،ج 6،ص6، حدیث:16814) ایک بار شانِ عمار کایوں ذکر فرمایا: کتنے ہی ایسے کمبل پوش ہیں کہ لوگ جن کی کوئی پروانہیں کرتے لیکن اگر وہ کسی بات کی قسم کھالیں تو اللہ تَعَالٰی ضروران کی قسم کو پوری فرمادیتاہے اور ان ہی لوگوں میں عمار بن یاسرکا شمار ہوتا ہے۔(معجم اوسط،ج4،ص194، حدیث: 5686) ایک مرتبہ یوں فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عمار کو سر سے لے کر پا¶ں تک ایمان سے بھر دیا ہے، عمار کے خون اور گوشت میں ایمان سرایت کرچکا ہے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص 393) آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سرکارِ دوعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہ وسَلَّم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج43،ص356) جنگِ یمامہ میں ایک موقع پر مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی تو آپ ٹِیلے پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے کہا: اے مسلمانوں کے گروہ! جنت تو امن والی جگہ ہے، بھاگتے کہاں ہو؟ میری طرف آ¶!میں عمار بن یاسر ہوں، اس دوران ایک کافر نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ پر حملہ کیا تو آپ کا ایک کان کَٹ کر زمین پر گرا اور پھڑکنے لگا،اس کے باوجود آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نہایت جوش و خروش سے جہاد میں مصروف رہے۔(طبقات ابن سعد،ج 3،ص192) ایک مرتبہ کسی نے آپ کو کٹے ہوئے کان پر طعنہ دیا تو آ پ نے فرمایا:تم مجھےطعنہ دے رہے ہو حالانکہ یہی کٹا ہوا کان مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ راہِ خدا میں قربان ہوا ہے۔ کوفہ کی گورنری: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نےامیرالم¶منین حضرت عمر فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں 21 مہینے تک کوفہ کی گورنری کے فرائض سر انجام دئیے۔ شہادت: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بروز بدھ 7 صفر المظفر سن 37 ہجری میں جنگِ صِفِّین میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ ال±کریم کے دفاع میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا،اس وقت آپ کی عمر مبارک 93سال تھی۔(تاریخ ابن عساکر،ج43،ص443، 449،359)

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.