مہنگا پانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ فرید
کوئٹہ جو ماضی میں ثمرستان کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا زیرِ زمین پانی کی ترسیل کا نظام “کاریزات”۔سے منسلک تھا۔اور کوئٹہ کے گرد و نواح میں ہرے بھر باغات پھلوں سے لدّے درختوں سے سجے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے دکھائی دیتے تھے ۔
پھر یوں ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کی آبادی بڑھتی گئی اور آبی وسائل گھٹتے گئے ، کاریزات کوڑا کرکٹ سے بھر گئے اور اُن پر انسانی بستیاں آباد ہوگئیں لیکن باغات ویران ہوگئے ۔
اِس وقت کوئٹہ شہر میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ،پانی کی قلت کا مسئلہ شدید ہوتا جا رہا ہے اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے پالیسی تبدیل نہیں کی تو ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بلو چستان کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کے حوالے سے زبردست احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو یا پانی کی قلت سے پیدا ہونے والے دیگر مسائل، ان سب کا حل ایک ہی ہے کہ حکومت اس مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے توجہ دے اور اسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک ایسی قومی پالیسی بنائی جائے جس میں ملک کی تمام انتظامی اکائیوں سے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا جائے کہ کوئی اگلی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی۔ جس تیزی سے پاکستان میں پانی کی قلت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے آنے والے برسوں میں یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ اس پر قابو پانے کے لیے تمام سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے ایک قومی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔پاکستان میں پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک عرصے سے نئے ڈیم بنانے کی بہت سی تجاویز تو زیر غور ہیں اور کئی پراجیکٹس پر کام بھی جاری ہے لیکن تاحال کوئی ایسا بڑا منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا جس سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر حکومت اپنی سیاسی مفادات کے تحفظ اور عوام میں مقبول ہونے کے بعض ایسے اعلانات کرتی ہے جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ عوام بیانات سے خوش ہو جاتے ہیں لیکن مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ ہمارے ملک میں ایک سیاسی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے، لہٰذا کوئی بھی حکومت اس کی تعمیر کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے صوبوں کے درمیان جن ہم آہنگی اور یکجہتی کی ضرورت ہے وہ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ایسے حالات میں عوامی مسائل بس سیاسی تقریروں میں ہی حل ہوسکتے ہیں اور ایسا ہی ہورہا ہے۔پانی کی قلت سے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں وہیں ملک کے مختلف علاقوں میں جاری آبی بحران کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ قلت آب سے خوراک کی کمی کا خطرہ ہے۔ اندریں حالات، حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو برقرار رکھ سکے کیونکہ یہ معاشیات کا سیدھا سا اصول ہے کہ اگر کسی شے کی رسد کم ہو جائے اور اس کی طلب بڑھ رہی ہو تو اس کی قیمت میں اضافہ ناگریز ہو جاتا ہے۔ ایک طرف ملک کے اندر پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ماہرین آگاہ کررہے ہیں تو دوسری جانب اقوام متحدہ کے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ان تئیس ممالک میں شامل کیا گیا ہے جنھیں گزشتہ دو برس سے خشک سالی کا سامنا ہے۔ ’گلوبل لینڈ آؤٹ لک‘ نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے علاوہ جن دیگر بائیس ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے ان میں افغانستان، ایران، عراق اور امریکا شامل ہیں۔ رپورٹ میں 2050ء کے حالات کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ تب تک مختلف خطوں اور ممالک کو پانی کی قلت کی وجہ سے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ان سے بچنے کے لیے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ٹینکر مافیا حکومت کی ملی بگھت سے کوئٹہ کےشہریوں کے لیئے ناسور کی شکل اختیار کرچکا جو انتہائی برق رفتاری سے پھیل گیا اور شہریوں کا خون جھونک کی طرح چوس رھا ھے اج سے 10 سال قبل کوی یہاں کا باسی سوچ نہیں سکتا تھاکہ پینے کا پانی بھی خریدنا پڑیگا لیکین اج ستم ظریفی کا یہ عالم ھے کہ مہنگائی چکی میں پسی عوام اللہ کےاس نعمت کو 4000 سے 5000 روپے دیکر خرید رہا ھے اس کی وجہ کہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں کی لونڈی بن چکی ھے جس کے اپنے کنٹرول میں ملک کا کوی ادارہ نہیں ٹینکر مافیا کا وجود محکمہ واسا اور حکومتی ذھانچے کے کھوکھلے پن پر طمانچہ ھے واسا اپنے ریزرو وائیر سے پانی کی ترسیل کو کیوں ممکن نہیں بنا پا رھا اسکی محرکات محکمہ جاتی کھوکھلا پن کرپشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے بے رحم مظاھرے ھیں ان سارے مظالم کو روکنے کے لیئے عوامی مزاحمت کو منظم کو کرکے عوامی ردِ عمل کو سامنے آنا چاہیئے
سوال یہ ہے کہ پرائیویٹ ٹیوب ویلوں سے پانی آ رہا ہے مگر سرکاری بورنگ بند پڑے ہیں آخر کیوں۔؟؟؟