حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالات زندگی
عنوان :
“حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالات زندگی ”
(قسط اول)
تحریر: فضل الہادی
آقائے دو جہاں رحمت اللعالمین سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت، زندگی اور سیرت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ اس وقت لکھا جارہا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا ۔ بندہ فقیر کے لیے یہ مقام باعث فخر ہے کہ آج ماہ ربیع الاول مہینے کی توسط اور اپنے رب کی توفیق سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کے متعلق لکھ رہا ہوں ۔اللہ کریم یہ معمولی کاوش قبول فرمائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ایک جامع اصول حیات ہے ۔ اس کا احاطہ ایک مضمون میں کرنا مشکل ہے ۔ سوچا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت، بچپن،خاندان، لڑکپن،جوانی،ازدواجی زندگی، معاملات، عطائے نبوت،تبلیغ ،مکی دور ، ہجرت مدینہ ، زمانہ قبل از اسلام، مدنی دور ،فتوحات ،اخلاق حسنہ قسط وار لکھ کر شائع کروں ۔ قسط وار لکھنے کا مقصد یہ ہے تاکہ قارئین ترتیب کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پڑھ سکیں۔
“ولادت” :
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلامی سال کے چوتھے مہینے ربیع الاول کے نو تاریخ بمطابق 22 اپریل 571 عیسوی کو مکہ المکرمہ میں بعد از صبح صادق قبل از طلوع آفتاب پیدا ہوئے۔ والد گرامی حضرت عبداللہ آپ کے پیدائش سے چھ ماہ قبل وصال کر چکے تھے ۔آپ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب کو جب آپ کے پیدائش کی خبر ملی آپ اس وقت طواف کعبہ میں مصروف تھے ۔ عبد المطلب نے عجیب سا منظر دیکھا کہ بیت اللہ کی دیواریں ایک دم جھک گئیں۔ اور دوبارہ خود بخود سیدھی ہوگئی تو اس وقت عبد المطلب کو اطلاع ملی کی عبد اللہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولادت کی شب قریش کی ایک گروہ جس میں ورقہ بن نوفل اور زید بن عمرو بن نفیل شامل تھے بت خانہ گئے انہوں نے دیکھا کہ بڑا بت زمین پر گرا ہوا ہے یہ دیکھ کر پریشان ہوئے بت کو سیدھا کرکے اپنے جگہ پر رکھا۔یہ عمل تین دفعہ جاری رہا ۔عثمان بن حویرث جو وہاں موجود تھا کہنے لگا کہ ضرور کوئی واقعہ رونما ہوا ہے ۔ بت سے آواز نکلی ۔ کہ آج ایک ایسا بچہ اس دنیا میں تشریف لا یا ہے جسکی برکت سے مشرق سے لیکر مغرب تک روشن ہوگئی ۔ اور دنیا کے تمام بت اسکی تعظیم وتکریم کیلئے سر بسجود ہوگئے ۔ اور سلاطین دنیا کے دلوں میں پریشانی بڑھنے لگی۔
آپ کا شجرہ نسب یوں ہے :
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
“حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک رکھنا”:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے خواب دیکھا۔ کہ اس کے پشت سے ایک زنجیر نکلی ہوتی ہے ۔زنجیر کا ایک حصہ زمین دوسرا آسمان میں ۔ایک حصہ مشرق اورایک حصہ مغرب کی طرف ہے ۔ کچھ دیر بعد زنجیر درخت میں تبدیل ہوگیا ۔ درخت کے ہر حصے سے نور چمک رہا ہے ۔ کچھ لوگ درخت کے شاخوں کو پکڑے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ کاٹنے کی کوشش کررہے ہیں اور ایک حسین و جمیل بچہ نے درخت کاٹنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو ہٹادیا ۔ عبد المطلب نے جب اس خواب کی تعبیر پوچھی بتایا گیا کہ مبارک ہوں تیرے نسل میں ایک ایسا انسان پیدا ہوگا۔ کہ مشرق سے لیکر مغرب تک لوگ اسکا اتباع کریں گے ۔ آسمانی اور زمینی مخلوق اس کے اوصاف بیان کریں گے ۔ اس تعبیر کو مد نظر رکھتے ہوئے عبد المطلب نے آپ کا نام “محمد” رکھا ۔
پیدائش کے ساتویں دن عبد المطلب نے عقیقہ کا دعوت کیا ۔کھانا کھانے کے بعد نومولود بچے کا نام پوچھا گیا ۔عبد المطلب نے جوب دیا “محمد” تو انہوں نے سوال کیا کہ یہ نام تو ہمارے آباؤ اجداد میں کسی کا بھی نہیں ہے ۔ دادا نے جواب دیا اسی لیے میں نے محمد کا نام رکھا۔ کہ ساری دنیا میں اسکی تعریف کی جائے ۔
“عرب اور رضاعت”
عرب میں رواج تھا کہ جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ دیہات میں رہنے والے عورتوں کو دودھ پلانے کی غرض سے دیتے تھے ۔ دیہات کی آب و ہوا بنسبت شہر کے صاف ہوتی تھی ۔ دوسرے زبانوں کے الفاظ اس میں شامل نہیں ہوتے تھے ۔ دیہات کے لوگوں کی لغت او زبان فصیح اور صاف ہوتی تھی ۔ اس لئے ابتدا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو دودھ پلاتی رہی۔اسکے بعد چند دن تک ابو لہب ( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے) کی لونڈی ثوبیہ نے بھی پلانے کا شرف حاصل کیا۔
اسکے بعد حضرت آمنہ اور عبد المطلب نے باہمی مشورہ کیا کہ کسی دیہاتی عورت کے ہاں دودھ پلانے کی ترتیب برابر کی جائے اس زمانے مکہ میں عورتیں آتی رہیں ہر عورت کی کوشش ہوتی تھی کہ انہیں ایسا بچہ ملے جو مالدار خاندان سے ہو تاکہ زیادہ پیسے اور لوازمات ملیں ۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدائشی طور پر یتیم تھے عورتیں آپ کو لینے سے احتراز کرتی تھی آخر کار حضرت حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے ۔ انہوں نے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیکر روانہ ہوئی ۔ جس خچر پر حلیمہ سعدیہ مکہ آئی تھی وہ نہایت کمزور تھا مکہ سے واپسی پر وہی خچر سب سے آگے نکل گیا ۔باقی عورتیں یہ دیکھ کر حیران ہوئے پوچھا کہ آپ نے مضبوط خچر خریدا ہے حلیمہ سعدیہ نے جواب دیا سواری نہیں بلکہ سوار تبدیل ہوا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے حلیمہ سعدیہ کی مالی زندگی بہتر ہوتی چلی گئی ۔ مال مویشی قحط کے باوجود چراگاہوں سے پیٹ بھرے گھر آتی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن کا نشونما دیگر بچوں کے بنسبت تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا تھا۔ دوسرے مہینے میں اشارہ سے باتیں شروع کی ۔تیسرے مہینے گھٹنوں کے بل جبکہ چوتھے مہینے پاؤں پر مکمل کھڑا ہونے لگا ۔ پانچویں مہینے دیوار کے سہارے چلنے لگے ۔چھٹے مہینے چلنے جبکہ آٹھویں مہینے دوڑ کر چلنے لگے۔نویں مہینے بولنا شروع کیا ۔دودھ کا زمانہ جب ختم ہوا تو ان الفاظ کے ساتھ اللہ پاک کا حمد بیان کیا .
ترجمہ : اللہ پاک سب سے بڑا ہے ۔ اور تمام تعریفیں زیادہ سے زیادہ اسی اللہ کو ثابت ہے۔ اور میں صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح بیان کرتا ہوں ۔
مدت رضاعت مکمل ہونے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ کو واپس مکہ لے آیا۔ان دنوں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی جسکی وجہ سے آپ کو واپس حلیمہ سعدیہ نے اپنے گھر لے آیا۔
رضاعت کے دنوں جب آپ حلیمہ سعدیہ کے ہاں تھے اس وقت جب آپ باہر نکلتے تھے تو گرمی کی تپش سے بچانے کیلئے آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کیے ہوئے دھوپ سے بچاتا تھا اور جب آپ رکتے تھے تو بادل کا ٹکڑا وہی رک جاتا تھا ۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)