بلوچستان پبلک سروس کمیشن اور طلباء کے مسائل
تحریر# جعفر قمبرانی
حالیہ دنوں پی سی ایس کے تحت امتحان دینے والے طلباء و طالبات کی پر امن جدوجہد مزحمت، بے چینی اور جستجو سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ چار پانچ سال بعد مشتہر ہونے والے یہ خالی آسامیاں ان کیلئے کتنی اہمیت کے حامل ہے۔ اسٹوڈنٹس کا مدعا یہ تھا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد اپنے اجڑے ہوئے گھر بار سمیٹ کر دوبارہ گھر بسا لیں یا ان امتحانات کی تیاری کریں جو زائے قسمت پھر کبھی مشتہر کئے جائیں بھی کہ نہیں۔ طلباء اس بات پر بضد تھے کہ نومبر میں ہونے والے امتحانات کی شیڈول میں ردوبدل کرکے چند ماہ بعد لئے جائیں۔ تاریخ بدل تو گئی مگر بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے امتحانی تاریخ نومبر سے بدل کرکے دسمبر میں رکھ دیا۔ المیہ یہ ہے کہ دسمبر کے ٹھٹھرتی سردی اور خون جما دینے والی موسم میں امتحان دے کر کتنے لوگ پاس کر چکے ہونگے۔
یاد رہیں کہ حالیہ دنوں پی سی ایس نے امتحانی تاریخ کو نومبر سے دسمبر کا تاریخ دیکر مزید توسیع کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردی ہے کہ امتحان دینے والوں میں ایسے امیدوار بھی ہے جو بلوچستان حکومت کی جانب سے مشتہر کیے جانے والے عمر کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور اسکے بعد وہ امتحان دینے کی اہلیت کھو دینگے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کل امیدواروں کی تعداد میں سے کتنے ہونگے جو عمر کے آخری حد تک پہنچے ہوئے ہیں اور امتحان میں بیٹھ نہیں سکتے۔ شاید ایک بھی نہیں، اگر ہے تو کمیشن ان تمام حضرات کی ایک فہرست جاری کریں۔ مگر تمام امیدواروں کو امتحان میں صرف اسی بنیاد پر بٹھا کر دسمبر کی ان سرد اور خشک موسم میں سب کو تیاری کرکے کوالیفائی کرنے سے کیوں روکھا جارہا ہے؟ ۔ کوئی کیسے بھلا ٹھٹرتی جسم اور لرزتی ہاتھوں سے امتحانی حال میں پرچہ لکھ کر پاس ہونے کی امید رکھیں! یاد رہیں کہ اس دفع محکمہ موسمیات نے خون جما دینے والی سردی کی پیشگوئی کی ہے جو کہ کسی امتحان دینے والے کیلئے ناکامی کا ایک اہم سبب بن سکتا ہے۔
اور یہ بات سروس کمیشن کی اہلیت پر ایک کھڑی سوال ہے۔
اگر اس کا دوسرا پہلوں دیکھا جائے تو یہ امتحانات تین چار سال بعد مشتہر ہونے کے بھی بہت کم چانسز ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے علاوہ پاکستاں کے دیگر صوبوں میں پروونشل مینیجمںٹ سروسز (PMS) کے تحت ہر سال اس نوعیت کے مقابلاتی امتحانات منعقد کئے جاتے ہے جس میں ذہنی طور پر تیار اور چست طلبہ ہر سال سیلیکٹ ہوکر صحیح اور مناسب وقت اور عمر میں اپنے خدمات سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔
دوسری طرف بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں جہاں فرسودہ تعلیمی نظام رائج ہونے کی وجہ سے طلباء وطالبات غیر یقینی طور پر چار یا پانچ سال بعد مشتہر ہونے والے مقابلاتی امتحانوں میں بیٹھ توسکتے ہیں مگر ان کو پاس کرکے اپنے عمر کے مطابق خدمات سر انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
صوبے میں معیاری تعلیم کا سلسلہ جامعات سے بمشکل وہ طلباء وطالبات شروع کر پاتے ہیں جو یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں مگر ایک اندازے کے مطابق اب بھی ساٹھ 70 فیصد بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ ان کا کیرئیر میٹرک یا ایف سی تک آکر ہی دم توڑ دیتی ہے۔
اسی اثناں میں، مناسب رہنمائی اور کونسلنگ نہ ملنے کے باعث طلباء وطالبات اس شش و پنج میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے کیریئر کا آغاز کہاں سے کریں۔
پی سی ایس کے تحت منقد ہونے والے غیر یقینی طور پر کہی سال بعد ہونے والے امتحانات کا انتظار کریں یا پھر اپنے ہی شعبے میں انتظار کرتے کرتے سروس کمیشن کے تحت عمر کی حدوں کو پار کرکے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھیں جہاں اسکے صلاحتیں، امنگیں اور تمام تر وابستہ امیدیں دم توڑ جاتی ہے۔
پبلک سروس کمیشن کو چاہیے کہ وہ ان طلباء کی مجبوری کو سمجھ کر پی سی ایس کی امتحانات مارچ کے بعد منعقد کریں اور حکومت حتیٰ الامکان کوشش کریں کہ بلوچستان میں بھی اس نوعیت کے امتحانات سالانہ پی ایم ایس (PMS) کے تحت لئیے جائیں جو بلوچستان کے طلباء وطالبات کو تیاری اور حتمی کامیابی کیلئے ایک موقع فراہم کریگی۔