انسانوں سے اللہ تک کا سفر

0 177

صبح کی صاف و شفاف اور نرم و گرم دھوپ آنگن میں پورے جوبن پر تھی اور وہ صحن میں بیٹھی کسی گہری سوچ میں ایسی گھم تھی کہ اسے آس پاس کی کسی چیز کی کوئی خبر نہ تھی کیونکہ وہ سوچ بھی کسی ایسے معاملے کے بارے میں رہی تھی۔وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ہمیشہ انسان ہی انسان کو کیوں دکھ،پریشانی اور غم کے ایسے دلدل میں جا پھینکتا ہے جہاں سے وہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آسکتا،اس کا وجود، اس کی خوشیاں،اس کے اپنے،اس کے رشتے سب کے سب بھی اسی دلدل کے باسی ہو جاتے ہیں اور کہیں نہ کہیں وہ خود بھی اسی دلدل کا باسی ہو جاتا ہے اس کے جذبات بھی وہی اسی دلدل میں رہنے پر مجبور ہو جاتیہیں کیونکہ انسان کے جذبات خاص کر غم ایک ایسا جذبہ جس میں انسان کو اپنوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اس کے اپنے یہ جاننے سے نہ بلد ہوتے ہیں کہ ان کا ایک اپنا کس اذیت کا سامنا کر رہا ہے،کس کرب سے گزر رہا ہے،اور کوئی بھی نہیں سمجھ پاتا کہ وہ کس دکھ میں مبتلا ہے ضروری نہیں کہ جو انسان بظاہر بالکل صحیح نظر آرہا ہو وہ اندر سے بھی بالکل ویسا ہی ہوکیونکہ دکھ نظر آنے والی چیز نہیں اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اور محسوس کرنیوالے کچھ خاص لوگ ہوتے ہیں جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتے اور وہ یہی سوچ کر دکھی تھی کہ اس کے دکھ کو محسوس کرنے کیلئے کے بھی کوئی اپنا نہیں تھا کہنے کو تو پورا گھر اپنوں سے بھرا پڑا تھا،کہنے کو تو موبائل بہت سارے کانٹکٹ نمبرز سے بھرا پڑا تھا لیکن ان میں سے کوئی اس کے دکھ کو محسوس کرنے والا نہیں تھا اس لئے وہ آہستہ آہستہ سب سے دور بہت دور ہوتی چلی گئی اور دکھ اپنی انتہا کو اس وقت پہنچا جب وہ سب سے دور ہوتی گئی اور کسی نے پوچھا بھی نہیں کہ کیوں؟اگر کوئی رسماََ پوچھ بھی لیتا تو وہ ایک ہی جواب دیتی کہ کچھ نہیں اور یقین مانے جب کسی سے پوچھا جائے کہ کیا ہوا اور وہ آگے سے کہیکچھ نہیں تو یقین مانے تو اس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے کہنے کو لیکن وہ یہی چاہتا ہے کہ جو کشمش اس کے دل میں چل رہی ہے اس کا کوئی اپنا اسے باہر سے محسوس کرے تاکہ اسے بھی تو پتہ چل جائے کہ ان اصلی اور نقلی رشتوں کے بھیڑ میں اس کا اصلی اپنا کون ہے کیونکہ آ ج کل کی یہ دنیا آرٹیفیشل رشتوں سے بھری پڑی ہے جن میں اوریجنل رشتوں کو ڈھونڈ پانا بہت ہی مشکل کام ہے اور انسان تو صدا کا نادان ہے جو انسانوں کے نقلی رشتوں کے لئے اپنے آپ کو نڈھال کرتا ہے،انسانوں کے پاس تو دینے کے لئے ایک ہی چیز ہوتی ہے جو وہ خوشی سے دوسروں کی جھولی میں ڈالتیہیں وہ ایک ہی چیز جسے وہ خودی تو برداشت نہیں کر سکتیلیکن دوسروں کو بڑی خوشی سے دیتے ہیں اور وہ ہے دکھ غم اور پریشانی جو وہ دوسروں کو ایسا دیتے ہیں جیسے وہ ان کے قرض دار ہو ان دکھوں کے اور وہ انھیں واپس لوٹا رہے ہوں انسانوں سے اچھے تو جانور اور پرندے ہوتے ہیں جو ایک بار کسی کے عادی ہو جائے تو کبھی بھی چھوڑ کر نہیں جاتے کاش انسانوں کی بجائے ہمارے رشتوں میں پرندے یا جانور ہوتے اگر ہم خوش ہوتے تو ہمارے ساتھ خوش ہوتے،اگر ہم د کھی ہوتے تو ہمارے ساتھ دکھی ہوتے اور اگر ہم روتے تو وہ ہماری آنسوؤں کا مذاق نہیں اڑاتے کبھی کبھی اس کادل کرتا کہ وہ اتنا زور سے چیخے کہ یہ زمین اور آسمان اس کی اس درد بھری چیخوں کو سن اس کو خود میں سما لے اور پھر وہ اس دکھ سے بھری دنیا میں کبھی واپس نہ آ سکیں۔
اس دکھ بھری دنیا اور دکھ دینے والے انسانوں سے وہ خود بخود دور ہوتی چلی گئی اور ایک ایسی ہستی جا ملی جو اسے نظر تو نہیں آتی لیکن وہ اس کو سات آسمانوں کی دوری پہ ہوتے ہوئے بھی اپنے دل کی اتاہ گہرایؤں،اپنے دل اور اپنے آپ کے بہت ہی قریب محسوس کرتی ہے،جو اس کے ہر دکھ سے واقف ہے،جو اس کو صرف اور صرف خوشیاں دینا چاہتے ہیں،جو اس کی آنسوؤں کا مذاق نہیں اڑاتابلکہ اس کو تو اس کے آنسو بہت ہی پسند آتے ہیں اور جب اس کے یہ آنسو کسی سجدے میں گرتے ہیں تو اس کی اس سجدے میں گرے ہوئے آنسو سیدھے ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور قبولیت کی صورت میں واپس زمین کا رخ کرتی ہے تو اس کا یقین اپنے رب پر اور پختہ ہو جاتا اور وہ ان آرٹیفیشل رشتوں کو چھوڑ کرایک حقیقی رشتے کی طرف رجوع کرتی ہے ایک ایسے رشتے کی طرف جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے،اس کی باتیں سنتا ہے،جس کے ہاتھ میں موبائل نہیں،جس کے کانوں میں ہینڈ فری نہیں جو ہمیشہ سننے کے لئے تیار رہتا ہے اورسب سے زیادہ مصروف ہونے کیباووجود وہ اس کی ہر بات کا جواب دیتا ہے اور کبھی مصروف ہونے کا بہانہ نہیں کرتا اور اب وہ صرف اور صرف اپنے رب کی طرف لوٹنا چاہتی تھی اور اس کیلئے وہ اس دنیا کے بے جا غم دینے والے ہر رشتے کو بہت پیچھے چھوڑکر سب سے آگے اپنیرب کی طرف خالی ہاتھ،خالی دامن،آنسوؤں سے بھری آنکھیں، بخشش کی امید اور دعا کی قبولیت کے یقین کے ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹ رہی تھی اور اب صرف اپنے رب کی ہو کہ رہنا چاہتی تھی۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.