آندھے کی جیب میں آئینہ
تحریر۔محمدنسیم رنزوریار
قارئین کرام۔ انسانیت کے ٹھیکداروں کی انسانیت کی ایک مثال ہے۔کہ امریکہ کے شکاگو میں اگلی لائ کے نام سے ایک قانون تھا جس میں کہا گیا تھاکہ بد صورت بچوں کیساتھ ناروا سلو کرنا چائیے۔ تو وہ انہیں جانوروں کی طرح عوامی مقامات پر پنجروں میں ڈال دیتے اور بیچ دیتے۔ یہ وہ درندہ تھا / جو اب چیخ رہا ہے اور انسانیت کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے (انسانیت ایک عظیم مذہب ہے) اور ہمیں اخلاقیات کا مظاہرہ کررہی ہے۔ کفار ایسے ہی ہیں۔ جانوروں کی طرح وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ، وہ لاپرواہ اور جاہل ہیں! (سورت الاعراف)اگردنیائی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو انسانیت کیخلاف سب سے زیادہ بدترین کردار امریکہ ہی نے ادا کیاہے۔کئی برسوں سے عالم انسانیت کی قتل وغارت گری میں اپنی جدید اسلحے کی تجربے کرتی رہی ہے۔مرد عورت بچے بچیاں بوڑھے اور بوڑھیاں کے علاوہ معزوروں کو بھی معاف نہیں
کیا حتیٰ کہ مسلسل کئی بار مکمل خاندانوں کو بمبار جیسی وحشت اور دردناک موت سے مارے گئے ہیں۔
پھر بھی دنیا کے اکثر اندھے سیاست مداراں امریکہ کے پلے میں انسانی خدمات کی وزن ڈالتے ہی وقت جابر اور فرعونی و سامراجی ظلم کو تقویت دیتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں آج کل شہرت اور ترقی پانے کیلئے لوگ اور کئی اقوام امریکہ کی دوستی میں تلاش کرتے ہیں۔کیونکہ امریکہ کی دوستی اور خوشنودی کیلئے کام کرنے والے روشن خیال عناصر کی نظروں میں پلاسفر بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر اقوام اور اشخاص جب اپنے ملک وملت پر اقتیدار کی خواہشمند ہوتے ہیں تو وہ سب سے پہلے امریکہ اور انکے قوانین کی مطالعہ اور ان سے انسانیت کی بنیاد پر تعلقات قئم کرتے ہی ملکی سطح پر شہریت یافتہ بنتے جاتے ہیں۔اسکی ایک واضح مثال ملالہ یوسفزئی کا ہے کہ جسکی پسندیدہ شخصیت امریکی صدر ابامہ تھے۔اسی پسندیدگی کی بدولت ایک امریکی جنرل نے خود کتاب لکھ کر اور بعد میں انکی نام پہ پبلش کرکے دنیا پر واضح کیاگیا کہ ملالہ ایک تعلیم یافتہ اور امن پسند نوجوان لڑکی ہے جو حقوق نسواں اور ترقی کی خواہش مند دل رکھتی ہے ایک وقت تھا کہ اس ملالہ کی تعریف میں پرنٹ میڈیاءالیکٹرونک میڈیاءسوشل میڈیاءکی آغاز کے علاوہ میوزکل شو و پروگرامات میں بھی روشن ستارہ بنی تھی لیکن اتنے تعریفوں اور صلاحیتوں کے باوجود ملالہ سے جو امیدیں قوم و ملت کے حوالے سے وابسطہ تھے سب کے سب خاک سے خاک میں ملے۔لیکن تاریخ کے کتابوں میں وقت کے عالم کفر سے لڑی جانے والی میوند کی ملالہ کو نئے نسل کے ذہنوں سے نکالنے کی ایک عظیم سازش چلایاگیا لیکن الحمداللہ اسلامی ننگ وغیرت اور بہادری کی مثالیں تاقیامت تک روشن تازہ اور زندہ رہینگے۔اسکے علاوہ کئی اشخاص اور تحریکات ہیں جو امریکہ اور اسکے قوانین سے مربوط ہونے کی دعوے کئے جاتے ہیں کہ یہ سب امریکہ اور اسکے خواہشوں کے مطابق یعنی اسکی اشارے سے ناچتے ہیں یہ بات بھی زیادہ حد تک خطرناک نظر آتی ہے
وہ اس لئے کہ امریکہ انڈیاء اور اسرائل جو پاکستان افغانستان میں کرنا چاہتے تھے اب وہ مطالبات ان ممالک میں اندر ہی اندر اپنے عوام کرتے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ اس ملک و ملت میں پہلے بیرونی قوتوں کی سازش و سفارش پر بیرونی ایجنٹوں سے جو کام لیا کرتے وہ کام آج ان ممالک میں خود بخود اپنے ہی عوام کرتا ہے۔ائے روز ایک بڑی پیمانے سے علماءکرام کی شھادتیں دین اسلام کیخلاف طرح طرح سازشیں اور افراتفری کی حالت پربا ہوا ہے جسے مسلمانوں کے درمیان سے اتحاد اتفاق اور بھروسے کی خاتمہ ہوئی ہے عالم کفر بشمول انکے روشن خیال اشخاص چاہتے ہیں
کہ یہاں بھی انکے خواہش کے مطابق نظام قائم کریں کہ ہمارے اورر انکے درمیان یہ معاشرتی فرق و تفریق ختم ہوجائیں بڑی حد تک یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب بھہ ہوئے ہیں کہ یہاں اکثریت آبادی معاشرتی زندگی میں اپنے علماءاور دینی مراکز کی بے احترامیوں میں پیش پیش ہیں۔آپ اندازہ لگائیں کہ بر صغیر میں اسلام کے نام پر کیا کیا پھیلایا گیا ہے اور کسطرح مقامی ہندو مذہبی ، تہذیبی و ثقافتی اصطلاحات کا ہم نے اسلامی متبادل بنایا ہے جس کا اسلام سے کوء تعلق نہیں ہے کیسے یہ دیکھیئے وہاں مندر یہاں مزار۔وہاں بت۔یہاں قبر۔وہاں سادھو۔یہاں ملنگ۔وہاں جوگی یہاں۔پیر۔وہاں درشن۔ یہاں زیارت۔وہاں ڈنڈوت۔یہاں سجد تعظیمی وہاں پ یرے۔ یہاں چکر۔وہاں پرشاد۔یہاں تبرک۔وہاں ب جن۔یہاں قوالی۔وہاں کیرتن۔یہاں د مال۔وہاں کریا کرم۔یہاں قل چہلم۔وہاں پنڈت۔یہاں مرشد۔وہاں ب گت۔یہاں مجاور۔وہاں جنم دن۔یہاں میلاد وہاں دیوالی۔یہاں شب برات۔وہاں دسہرہ۔یہاں تعزیہ ۔وہاں تانترک بابا۔ یہاں عامل بابا۔وہاں راکھی۔یہاں امام ضامن۔وہاں داسی۔یہاں مریدنی۔وہاں تنتر منتر۔یہاں تعویز گنڈا۔وہاں بتوں کو غسل۔یہاں قبروں کو غسل۔وہاں سادھو نہیں نہاتا۔یہاں ملنگ نہیں نہاتا۔لیکن حقیقی دین اسلام کی جامہ بالکل ہم سے اترایا گیا ہے صرف اسلامی جامہ و لباس میں غیروں کی دین و مشابہت میں ہم لگے ہیں۔لیکن اسلام ایک آئنہ ہے مگر ہم آندھے ہیں اگر ہم سب اسلامی آئنیے کی طرف مائل ہوجائیں تو بہت سرارے خرافات سے نجات ملے گی ،اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو صحیح کتاب و سنت کا فہم عطا فرمائے ، آمین