نجانے اس حب شہر کو کس کی آہ لگ گئی
چند دہائیوں پہلے بہتر بنیادی سہولیات گیس، بجلی پانی کے ساتھ اس شہر کی صاف ستھری فضاء خوبصورت ہریالی معتدل موسم جیسے کرشمہ قدرت نے بھی نوازشات برابر رکھی ہوئی جن کی بچپن یہاں پچپن بن کر گزری وہ اپنی ماضی میں کھوئے اس چین کی بانسری کو بڑے پرسکون انداز اپناتے ایک سرد آہ بھری لہجے میں بیان کرتے جیسے آنکھوں کی ٹھنڈک اسی لمحے افسرده پلکوں سے جھپکائے جاتے ہوں. برسے برسات تو اٹھتے قدموں کو بھی دھیان سے رکھتے کہ کہیں بہتا بارش کا شفاف پانی میلا نہ رہے فضاء ایسی کہ بہار کی آمد سانسوں میں میٹھی خوشبو بن جائے پرندوں کی چہچہاہٹ پتوں کی سرسراہٹ ہر گزرتے شام کی زرد کرنوں میں امن و سکون کے راگ الاپتے رہے ہوں مری ہوں یا زیارت لوگ سرد موسم میں یہاں کھینچتے چلے آئے لاڑکانہ ہو یا ملتان تپتی شعاعوں سے بھاگے ہنر مندوں کو یہ اپنی ٹھنڈی چھاؤں کی آغوش میں پناہ د ے ملک کے ہر کونے سے زلزلہ ہو یا سیلاب والی وارث مکان بنے میزبان یہ شہر ٹھرے لائنوں سے چلے پانی شور موٹر کی کبھی نہ آئے سردی ہو کوئی ہیٹر چلائے یا کوئلہ جلائے گیس پھر بھی کبھی نہ شرمائے گرمی جتنی آئے پنکھے چلائے نہ آئے تو کبھی بل بجلی بن کر کوتوال جانے صوبیدار جانے کھاتہ ان کا کبھی نہ کوئی کھلوائے آہ میری جان میرے شہر کو یہ کس کی آہ لگ گئی *نہ سڑک ہے نہ پانی نہ گیس آئے سیوریج میں ڈوبا ہر گلی کوچہ تصویر بے بسی بنائے پتہ تو یہاں بس ہر آئے مسافر کو یہ مسلسل بہتا سیوریج کا گندا سیاہ پانی ہر سڑک کے چوراہے پر ہر گلی کے نکڑ پر پہنچ پہنچ کر بتلائے کہ فنٍڈز کے معنی شفاف نہیں خدمات عوامی افسر شاہی کا یہ کام نہیں ہاتھ پیر ہو بلے گندے ضمیر ہو بلے شرمندے پر ڈوبا سدا رہے بہتی گنگا میں حرص ہوس کے مارے یہ چند لوگ قابض ہوئے جب سے بہتے دریا صحرا بن گئے گنگناتے کلیان ویران ہوگئے امن کی فاختائیں پرواز کرگئے کوئل کی صدائے ترسا گئے اندھیر نگری چوپٹ راج ہے لہروں کی زد میں محو سفر عوام ہیں سرکار سے شکوے زبان زد عام ہیں شمع پروانہ اب کہاں سے ڈھونڈ کے لائے امید کی دیا اب کیسے کوئی جلائے وہ سپنے وہ وعدے کھوٹے ہیں سب یہ سکے پھر بھی دور وہ آئے موسمی پرندے اڑ کے آجائے جب جال نیا بن جائے حالات ہردم رہے یوں ہی من مانی جب چاہے کرے کوئی چاہے روٹھ جائے یا اترائے وقت آئے ہمارا بھی بس سجے میدان تو بتلائے ہم بھی