مدارس اصلاحات کابجٹ اورعلماءکاردعمل
تحریر: سعداللہ سعدی
حالیہ رواں مالی سال کے بجٹ میں جب “مدارس اصلاحات” کے نام سے 5ارب روپے مختص کیے گئے۔ اہل مدارس کے درمیاں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہنگامی طورپر وفاق المدارس کی جانب سے اس فنڈ کو یکسر مسترد کیا گیا۔ اس پیش رفت کو مدارس کی خود مختاری، آزادی اور حریت پر ایک سیاہ دھبہ قرار دے کر جوتے کی نوک پر رکھ پھینک دیاگیا۔اس طرح اہل مدارس اس آفر پر شکر بجالانے کے بجائے حکمرانوں کی نیتوں پر شک کرنے لگ گیے۔ یہ اصلاحِ مدارس کے نام پر بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے وہ لوگ ہیں جو موقع کے متلاشی ہیں۔ یہ حکومت خود مملکتِ پاکستان پر بوجھ ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے سے ڈرنا ان کے بوجھ ہونے پر واضح دلیل ہے۔ جوخود ایک بوجھ ہوں وہ مدارس کی پشت پرسے بوجھ نہیں اتارتے بلکہ خنجر گھونپنے کے لیے گھات لگائے موقع کے منتظر ہیں۔جو ہر روز مدارس پر من گھڑت الزامات لگاکر تھکتے نہیں وہ بھی مدارس کو ریلیف دینے کی باتیں کرتے ہیں۔ اصلاحِ مدارس کے نام پر تیز چھری لیے بیٹھے ہیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ ” اس حوالے سے مدارس کی خود مختاری کو سلب کرنے کی ہر کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا، کسی بھی طریقے سے ہم اپنے دینی مدارس میں حکومتی مداخلت کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کریں گے- ہم نے پہلے بھی کہہ دیا ہے کہ ہمیں مدارس اصلاحات کا لفظ ہی قبول نہیں ہے۔ یہ مدارس کے لیے ہم توہین کا باعث سمجھتے ہیں۔ اصلاح کرے تو حکومت اپنے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی اصلاح کریں، جہاں ہزاروں خامیاں موجود ہے اور جہاں نصاب میں آئے روز کبھی ختم نبوت کے حوالے سے نصاب میں تبدیلی کی جاتی ہے، کبھی کچھ اورتبدیلیاں۔ جو بعد میں حکومت دباو میں آکر فیصلے واپس لے لیتی ہے۔ دینی مدارس بچوں کی اسلامی روح کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے جو اعلیٰ خدمات سرانجام دے رہی ہے، وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برقرار رہنا ہے اور کسی طریقے سے بھی حکومتی مداخلت سے اسے مت?ثر نہیں ہونے دیا جائے گا” اہل مدارس کی جانب سے یہ فیصلہ مذموم مقاصد کی تکمیل کاحصہ قرار پایا۔ گزشتہ ادوار میں بھی مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لانے کےلیے کئی ایسے فیصلے کیے گئے ہیں جو گڑھ میں زہر دینے کے مترادف ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مدارس نے اپنی مقصد میں سوفیصد کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر سال ساٹھ ستر ہزار حفاظ کرام تیارکرتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں علمائ کرام اور مفتیان عظام پاکستان میں ستاروں کی مانند چمکادیئے جاتے ہیں! یہ علمائ ِکرام ،یہ مفتیانِ عظام اوریہ حفاظِ قرآن کی طویل سلسلہ یہی مدارس سے جاری وساری ہے۔. پاکستان کے مدارس پوری دنیا میں اوّل نمبر پر ہیں۔ دنیا میں کہیں پر بھی اتنے علمائ وحفاظ تیار نہیں ہورہے ہیں جتناکہ پاکستان میں یہی مدارس تیار کررہے ہیں۔ اسی لیے دوتین برس قبل وفاق المدارس کو زیادہ سے زیادہ حفاظ تیار کرنے پر سعودی حکومت نے عالمی ایوارڈ سے نوازا۔ سن 2015ئ میں جب دارالعلوم کراچی میں میری فراغت کا سال آخری مراحل میں تھا۔ میں نے جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب شیخ الحدیث استاذمحترم حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب دامت فیوضہم سے مشورے کی غرض سے دارالافتائ میں ملاقات کی۔ میں نے کہا استاذ جی میں نے مدینہ یونیورسٹی جاناہے! بیٹا! وہاں کیاکرنے جارہے ہو ؟ استاذ جی مزید علم حاصل کرنے کی غرض سے جانے کا ارادہ ہے۔ بیٹا وہاں آپ کو پاکستان سے زیادہ علم نہیں ملے گا۔ وہاں آپ کو پاکستان کے علمائ سے اچھے علمائ میسر نہیں ہونگے۔ یہ ان کے الفاظ تھے کہ آپ کو کہیں بھی پاکستان کے علمائ سے اچھے علمائ نہیں ملیں گے اور علم بھی انہیں کے پاس ہے۔ پاکستان اب علم دین کا مرکز ہے۔ دنیا بھرکے طلبہ کرام علم دین میں ترقی حاصل کرنے کےلیے پاکستان کا ر±خ کرتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے زیرِ انتظام عصری ادارے اپنی ناکامی کی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیاں دنیا کے کامیاب ترین یونیورسٹیوں میں نام نہیں بناسکیں۔ کہیں بھی خارج ملک کے طلبہ پاکستانی عصری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس یہاں کے اسٹوڈنٹ روس،جرمنی، فرانس اور امریکہ جاکر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ صرف عصری تعلیمی اداروں کی نہیں بلکہ اہلِ پاکستان کی بدنامی اور ناکامی ہے۔ دینی مدارس بچوں کے اخلاق وآداب، تعلیم وتربیت ، بڑوں کےاحترام واکرام، بچوں پر شفقت ومحبت ، مجالس میں نشت وبرخاست ،افعال واقوال ،غرض حیاتِ انسانی کی تمام پہلووں کودرست کرانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ دینی طلبائ اکرام کا اپنے اساتذہ کے ادب واحترام کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔ اگر آپ کو کہیں ادب کی تعلیم حاصل کرناہے تو مدرسے کے طلبہ کے ساتھ دو روز گزار کر سب کچھ سیکھ جاوگے۔ عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ میں اساتذہ کے ادب کاخیال رکھنے والا خال خال کوئی نظر آئیگا۔ پاکستان کے تھانوں میں سینکڑوں ایسے ایف آئی آر درج ہوئے ہیں کہ فلاں سکول کے طلبہ نے اپنے استاذ کو مارا۔ بیسیوں قتل کے واقعات ان ہی عصری اداروں سے رونمائ ہوئے ہیں۔ دسیوں کیسز ایسے بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ فلان عصری ادارے میں باپردہ معصوم لڑکیوں کوہراساں کیاگیا۔ مجال ہے کہ کوئی ایک بھی ایسا کیس مدرسے کا سامنے آئے۔ وجہ بالکل ظاہر ہے کہ مدارس اصلاح شدہ ہیں وہ اپنی کامیابی کا سونا منگوارہے ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے بہت ہی خوب فرمایاہے کہ “جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا جو تم چاہتےہو، انقلاب! ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی۔ ان مکتبوں(دینی مدارس) کو اسی حال میں رہنےدو۔ غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کے اثرسے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر ، الحمرائ اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرواں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کے سِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا” کل ایک شوریدہ بارگاہِ نبی پہ ر±ور±و کےکہہ رہا تھا : کہ مصروہندوستان کےمسلم بِنائےملت مٹارہے ہیں غضب ہےیہ رہبران خودبیں خدا تری قوم کو بچائے: مسافرانِ رہِ حرم کو رہِ کلیسا دکھا رہے ہیں۔