ہر و قت کا ہنسنا تجھے بربادنہ کردے

1 229

ابھی موقعہ ہے اعمال نامہ کھلا ہے سانسیں آرہی ہیں۔ زبان باتیں کرنے میں مشغول ہے جسم میں حرارت ہے۔بدن توانا۔۔توبہ کی جا سکتی ہے جو ہاتھ دعا کےلئے اٹھانے پر قادر ہیں ہاتھ اٹھا لیں جوسکت نہیں رکھتے دل ہی دل میں اپنے گناہوںکی معافی مانگ لیں۔۔توبہ دل سے کی جائے توقبول ہوتی ہے اللہ کے حضور اشک ِ ندامت کی بڑی قدرہے ۔
ہروقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
دوسروںکا مذاق اڑانے والے،رعونت سے تنی گردنیں،لوگوںکوبلکتے سسکتے دیکھ کر بھی رحم نہ کھانے والے دل،کسی کا دکھ محسوس نہ کرنے والی آنکھیں اورنامہربان حالات کے ماروںپر نامہربان ہاتھ۔کیونکرتوبہ کریں گے وقت ہاتھ سے نکلا جا رہاہے حیف ہے پھر بھی سوچنے کو وقت نہیں۔کیا توبہ کے دروازے بند ہونے کاانتظارہے۔جس شخص پر جتنی بڑی ذمہ داری ہے وہ اتنا ہی جوابدہ ہے ہمارے ملک کے بیشتر سیاستدان نسل درنسل اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے موجودہ جمہوریت ان کی سب سے بڑی محافظ۔ عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ان کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو نوکری کےلئے خجل خوار ہونا مقدر بن جاتاہے زیادہ تر معاشی غلامی میں ہیں جہاں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر قادر نہ ہوں تبدیلی کیسے آئے گی ؟ تبدیلی تو اندر سے آتی ہے تو انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے جو طبقہ صرف اپنے بارے سو چتا ہے ان کا مرکزو محور فقط اپنے مفادات کا تحفظ ہوتاہے اور پتے کی بات یہ ہے کہ صرف اپنے بارے سوچنا رہبانیت ہے یہ اصول ہم اپنے سیاستدانوں،بیوروکریٹوں، جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور اشرافیہ پر لاگو کردیں تو پھربچتا کیا ہے؟ سب سے سب راہب۔۔ دین ِ فطرت کے اصولوں کے منافی طرز ِ عمل جن کا من پرانا پاپی ہو وہ ہر قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں کیونکہ تبدیلی تو ان کے خلاف آناہے جن کی مزاحمت شدید ترہورہی ہے۔جو تمام کے تمام متحدہو تے جارہے ہیں دوسروںکےلئے سوچنا شیوہ ¿ پیغمبری ہے درحقیقت یہی ہیرو کہلوانے کے حقدارہوتاریخ بتاتی ہے کسی نظریہ کےلئے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ناموافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو دنیا میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار دوسرا بے اختیار لوگوںکا۔۔ استحصال کی ہر شکل گناہ جیسی ہوتی ہے جیسے تمام بھیڑوںکی شکل صورت ایک جیسی؟ سوچتے کیوں نہیں گناہ زہرکی مانندہے کم ہو یا زیادہ ۔دونوں صورتوںمیں نقصان دہ ہے۔ جس سے فاصلے بڑھتے ہیں غلط فہمیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیںپھر وہ بھی سنائی دیتاہے جو کہا بھی نہ ہو۔زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں اور زندگی سب سے بڑا دھوکہ جس کے پیچھے ہر شخص بھاگ رہاہے۔اگر قسمت کا لکھا ہی سب کچھ ہوتا تو ہمیں دعا مانگنے کا حکم نہ دیا جاتا۔۔۔رشتے کمزور تب ہوتے ہیں جب غلط فہمیوں کے درمیان انسان سوالوں کے جواب خود ہی تصور کرلیتاہے اس لئے سیانے کہتے ہیں دل کے دروازے ہروقت کھلے رکھنے چاہییں۔معافی مانگ لینی چاہےے معاف کر دینا چاہیے یہ دونوں عادتیں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو بہت پسند ہیں صلہ ¿ رحمی دلوںکو آباد رکھتی ہے ویر ان نہیں ہونے دیتی لیکن ہم ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں ہیں۔لیکن کیا کیجئے ! آدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق بھی اب ہمیں کوئی فرق نہیں لگتا ضمیر، احساس اور مروت کا گلہ گھونٹ کر شاید ہم نے تنزلی کو ہی ترقی کامتبادل سمجھ لیاہے اسی لئے تیزی سے تنزلی کا یہ سفر جاری ہے لیکن کسی کو مطلق احساس تک نہیں اسے اجتماعی بے حسی سے بھی تعبیر کیا جا سکتاہے اور اجتماعی خودکشی بھی۔ تیسری دنیا کے درجنوںممالک کے حکومتی نمائندے، اہل ِ فکر،دانشور بالخصوص علماءکرام اساتذہ معاشرے میں بہتری کے لئے کچھ اسباب پر غور کریں لوگوںمیں حلال حرام کی تمیزاجاگرکی جائے،ہر سطح پر ظلم کے خلاف مو ¿ثر تحریک چلا ئی جائے۔۔نفرتوںکے خاتمہ کےلئے محبت ،رواداری اورمذہبی ہم آہنگی کے فروغ کےلئے کچھ کیا جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔ لیکن کریں کیاشاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں۔ آج مسلمان کیا،ہندو کیا، عیسائی اور پارسی سب کے سب ایک برابرہوگئے ہیں انسان ہونے کے باوجودہم مروت، احساس ،اخوت،بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی چاہت سے عاری ہوتے جارہے ہیں اوردل ہیں کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کسی لالچ ، اجریاثواب اور صلہ کی خواہش کئے بغیر انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی علامت ہے صرف جنوبی ایشیاءہی نہیں سارک ممالک کا بھی یہی حال ہے بلکہ غور کیا جائے تو درجنون افریقی ملکوں بلکہ ہر غریب ملک کے مسائل ایک جیسے ہیں جن میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں دنیاآج جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوںتک محدودہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت غریبوںکی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں اصلاح ِ احوال کےلئے کوئی طریقہ ہے نا سلیقہ۔۔لگتا ہے کسی کو اس بارے سوچنے کی کوئی فکرنہیں اچھے خاصے لوگ تنقید کے ڈر یا بااثرلوگوںکے خوف سے تعمیری کام کرنا بھی بند کردیتے ہیں۔کبھی کبھی ہم سوچتے رہتے ہیں اور سوچ ۔۔سوچ کر سوچتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ظالم ا تنے طاقتور، بااثر اورصاحب ِ اختیار کیوںہیں؟ نداہے ۔صدائیں دن رات گونج رہی ہیں ابھی موقعہ ہے اعمال نامہ کھلا ہے سانسیں آرہی ہیں۔۔ زبان باتیں کرنے میں مشغول ہے جسم میں حرارت ہے۔بدن توانا۔۔توبہ کی جا سکتی ہے جو ہاتھ دعا کےلئے اٹھانے پر قادر ہیں ہاتھ اٹھا لیں جوسکت نہیں رکھتے دل ہی دل میں اپنے گناہوںکی معافی مانگ لیں۔توبہ دل سے کی جائے توقبول ہوتی ہے اللہ کے حضور اشک ِ ندامت کی بڑی قدرہے ۔ شب وروزکے میلے میں دنیا کے جھمیلے میںکبھی اکیلے میں سوچوغفلت کے مارے لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں ہم نے جس کو دفنا دیا بس اسی کو مرنا تھا حالانکہ بلھےؒ شاہ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا بلھےؒ شاہ اسیں مرنا ناہیں۔۔۔گور پیا کوئی ہو ۔ چلو مان لیا پاکستانی سیاست کی پون صدی پر غورکیا جائے تو یہ احساس گہرا ہوتا چلا جائے گا کہ اس ملک میں آج تک جمہوری انداز سے کوئی سیاستدان بناہے نہ اقتدار میں آیا سب کے سرپرست ِ اعلیٰ فوجی ڈکٹیٹر تھے اس حقیقت کو کوئی جھٹلانا بھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتایہی وجہ ہے کہ کسی حکمران نے اپنے دل میں عوام کا درد محسوس نہیں کیا”شارٹ کٹ“ کے فارمولے پر پیرا شوٹ کے ذریعے نازل ہونے والے عوام کا دکھ کیا جانیں لیکن بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان شام جیسے نہ جانے کتنے ممالک کے حکمرانوںکو کیا معلوم مہنگائی کس عفریت کا نام ہے؟۔۔بھوک سے بلکتے بچوںکو دیکھکر اپنا گردہ بیچنے والوںپر کیا بیتتی ہے؟۔ تھانے کچہری اور سرکاری اداروں میں عوام کوکتنی تذلیل برداشت کرنا پڑتی ہے اب وہ حکمران کہاں سے لائیں جس کا کہنا تھا” دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے قیامت کے روز اللہ کے حضور عمرؓ جواب دہ ہوگا“ لیکن ذرا سو چواگر ہم احساس کی دہلیز پر کھڑے ہوکر بغور جائزہ لیں تو ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔ایسے ایسے سفید پوش ہیں جن کے حالات کا ہمیں پتہ چلے تو کلیجہ منہ کو آنے لگے لیکن کریں کیا؟ ارباب ِ اختیارکو کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیںکتنے ہی اسحق ڈار روز واویلہ کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہاہے ۔ اپوزیشن بھی سیاست چمکانے کےلئے غریبوں کی بات کرتی ہے حکمران ہیں کہ بلند و بانگ دعوﺅںکو ہی اپنی کارکردگی سمجھنے لگے ہیں۔ پاکستان میں تو حکومت نے زکوٰة دینے کے نام پر غربیوںکو بھکاری بنا کررکھ دیا ہے آج تک کسی حکومت نے بھی غربت ختم کرنے کےلئے حقیقی اقدامات نہیں کئے قرضہ سکیمیں بھی ان کے لئے ہیں جوباوسائل ہیں جن بے چاروںکو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ گارنٹر کہاں سے لائیں یہ فلسفہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا عام آدمی کے وسائل کم ہورہے ہیں،مہنگائی اوربیروزگاری بڑھنے سے لوگوںکا حشر نشرہوگیاہے۔کم وسائل جس اذیت۔جس کرب سے گذررہے ہیںوہ جانتے ہیں یا ان کا رب ہی جانتاہے۔اب کون سوچے بہتری کیسے ممکن ہے۔غربت کو بدنصیبی بننے سے کیسے روکا جائے۔بھارت میں فٹ پاتھوں ،بنگلہ دیش میں سمندرکے ساحلی علاقوں،پاکستان کے چولستان،تھر یا پھر اجاڑ ویرانوں اور افریقہ کے تپتے ہوئے ریگزاروں میں ہر سال لاکھوں افراد جھونپڑیوں میں پیداہوتے ہیں اور وہیں سے ان کے جنازے اٹھتے ہیں یہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوںکو ترستے ترستے مرجاتے ہیں حکمرانوںکو اپنی رعایا کی فکرہونی چاہےے ۔ابھی موقعہ ہے اعمال نامہ کھلا ہے سانسیں آرہی ہیں۔ زبان باتیں کرنے میں مشغول ہے جسم میں حرارت ہے۔بدن توانا۔۔توبہ کی جا سکتی ہے جو ہاتھ دعا کےلئے اٹھانے پر قادر ہیں ہاتھ اٹھا لیں جوسکت نہیں رکھتے دل ہی دل میں اپنے گناہوںکی معافی مانگ لیں۔توبہ دل سے کی جائے توقبول ہوتی ہے اللہ کے حضور اشک ِ ندامت کی بڑی قدرہے۔

You might also like
1 Comment
  1. DR MAXWELL says

    کیا آپ گردہ، جسمانی اعضاء خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا گردہ یا جسمانی اعضاء بیچنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ مالی خرابی کی وجہ سے پیسے کے عوض اپنا گردہ بیچنے کا موقع ڈھونڈ رہے ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے، تو آج ہی ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو آپ کے گردے کے لیے 500,000 ڈالر کی اچھی رقم پیش کریں گے۔ میرا نام ڈاکٹر میکسویل ہے .CH. اور میں بل روتھ ہسپتال میں نیورولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال گردے کی سرجری میں مہارت رکھتا ہے اور ہم ایک زندہ اور متعلقہ عطیہ دہندہ کے ساتھ گردے کی خریداری اور پیوند کاری کا معاملہ بھی کرتے ہیں۔ ہم ہندوستان، امریکہ، ملائیشیا، سنگاپور میں واقع ہیں۔ جاپان۔

    اگر آپ گردہ بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو برائے مہربانی ہمیں بتائیں
    آرگنز برائے مہربانی ہم سے ای میل پر اور بذریعہ رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

    ای میل: birothhospital@gmail.com
    واٹس ایپ نمبر:+35795537941
    ٹیلیگرام: +35795537941
    وائبر: +35795537941

    نیک تمنائیں
    ڈاکٹر میکسویل۔ چودھری. (ایڈمن)
    آئی این ٹی وابستگی کے سربراہ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.