پاکستان کا علاقہ کونسا ہے

0 347

تحریر۔حمادرضا
یہ واقعہ میرے ایک کزن کے یونیورسٹی کے زمانے کا ہے جب اس کے ایک قریبی دوست نے اسے آفر کی کہ اس ویک اینڈ پر میں اپنے آبائ علاقے جا رہا ہوں تم بھی میرے ساتھ چلو رونق لگی رہے گی اور آب و ہوا بھی تبدیل ہو جاۓ گی میرے کزن کے دوست کا گاؤں خانقاہ ڈوگراں کے نواحی علاقے میں واقع تھا سفر کا آغاز ہوا دونوں جب مغرب کے قریب خانقاہ ڈوگراں کی حدود میں داخل ہوۓ تو گاڑی نے چند ہچکولے کھا کر آگے بڑھنے سے جواب دے دیا اس وقت موبائل فون اتنا عام نہیں تھا کہ کسی کو فون کر کے فوری مدد کے لیے بلا لیا جاتا کیوں کہ گاؤں وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا خدا خدا کر کے کسی سے مدد حاصل کرنے کے بعد گاڑی ٹھیک ہوئ اس وقت شام کے ساۓ تقریباً ڈھل چکے تھے مدد کرنے والے شخص نے جاتے ہوۓ نصیحت آمیز لہجے میں کہا آگے ذرا دھیان سے جائیے گا آگے ڈوگروں کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے یہ کہہ کر وہ چل دیا اور میرے کزن اور اس کے دوست کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئ کیوں کہ میرے کزن کا دوست بھی ڈوگر برادری سے ہی تعلق رکھتا تھا اور انہی کی گاؤں میں برسوں سے دشمنی چلی آ رہی تھی دشمنی بھی اتنی سخت کے باہر سے آنے والے اجنبی بھی گاؤں میں داخل ہونے سے کتراتے تھے گاڑی کی مرمت کرنے والے شخص نے بھی شائد انہیں اجنبی یا شہری بابو سمجھ کر ہی وارن کیا تھا خیر یہ واقعہ یہاں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شیخوپورہ یا خانقاہ ڈوگراں کی ہی بات نہیں ہے پاکستان کا ہر علاقہ اپنے طور پر ایک چھوٹی ریاست میں منقسم کر دیا گیا ہے جہاں حکومتی رٹ نا ہونے کے برابر ہے اور جہاں ہر اجنبی جاتے ہوۓ گبھراتا ہے ہمارے ملک میں جتنی برادریاں ہیں اتنے ہی علاقے ہیں اور اتنے ہی قانون بھی اپر پنجاب کی سائیڈ کی بات کریں تو کہیں چیموں اور کہیں چٹھوں کا علاقہ شروع ہو جا تا ہے جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور میں دریشکوں مزاریوں اور گورچانیوں کے علاقے آباد ہیں ڈیرہ غازی خان میں لغاریوں اور کھوسوں کی اسٹیٹس نظر آتی ہیں پوٹھو ہار کی طرف اعوانوں اور نیازیوں کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے کہیں محسود علاقہ ہے تو کہیں آفریدی دھاک بیٹھاۓ نظر آتے ہیں بات اگر سندھ کی کریں تو وہاں وڈیرہ کلچر آج بھی عروج پر ہے سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی ہوئ جاگیروں کے مالک خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں اسی لیے ان تمام علاقوں میں دراصل انہی افراد کی حکومتیں ہیں اور اصل حکومتی نمائندے تو آپ کو چراغ جلا کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے یہی وجہ ہے کہ ہمیں قانون کی گرفت انتہائ ڈھیلی اور کمزور نظر آتی ہے جا بجا ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہے جو اٹھتا ہے اپنی عدالت لگا کر چلا جاتا ہے صادق آباد میں نو افراد کا قتل آپ کے سامنے ہے اور خوف کا یہ عالم ہے کہ مقتول پارٹی میں سے کوئ مدعی بننے پر راضی نہیں ہے یہاں وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ صادق آباد بھی پنجاب میں آتا ہے اور آپ پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں نا کہ صرف بنی گالہ کے آپ کبھی اندرون ڈیرہ غازیخان کا سفر کریں تو آپ کو ڈبل کیبن ڈالوں کے آگے سبز رنگ کی نمبر پلیٹوں کے اوپر سرداری عہدے لکھے نظر آئیں گے جیسا کہ چیف آف لاشاری ٹرائیب یعنی ایسے کہ جیسے کوئ بہت بڑا سرکاری افسر گزر رہا ہے جن لوگوں کے پاس خود سے دیے عہدے اور خود کے دیے اختیارات موجود ہوں انہیں بھلا کسی قانون کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے ہم نے اپنے وطن کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹ رکھا ہے اجتماعیت نام کی چیز کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی اور یہ سب دیکھ کر ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر پاکستان کا علاقہ کونسا ہے؟

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.