وعدے، خواب، اور سیاست
جمہوریت؟ یہ ہمارے سیاستدانوں کی وہ جادوئی چھڑی
ہے جس سے وہ عوام کے خوابوں کی دیگ تیار کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اس دیگ کے اندر کبھی کچھ پکتا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہوتی ہے، لیکن یہاں عوام صرف انتخابات کے وقت جلسوں کے مجمع کا حصہ بننے یا بریانی کھانے تک محدود رہتی ہے۔
برابری اور انصاف؟ یہ ہمارے سیاسی ڈکشنری کے وہ الفاظ ہیں جنہیں صرف تقریریں چمکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں، برابری صرف اتنی ہے کہ سب کو یکساں طور پر مہنگائی، صحت کی ناکافی سہولیات ، عدم مساوات ، بد عنوانی، گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ، اور بیروزگاری کے مزے لوٹنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ آزادی کی حالت یہ ہے کہ عوام اپنے مسائل کے ساتھ آزاد ہیں، جبکہ سیاستدان اپنے وعدے بھولنے میں۔
ہمارے ہاں جمہوریت کا سفر بھی بڑا دلچسپ ہے۔ انتخابات کے بعد ایک لمبی نیند آتی ہے، پھر وعدے اور دعوے ایسا گم ہو جاتے ہیں جیسے کسی کی دکان پر ادھار کا حساب
ہنستے ہوئے وعدے اور آنکھوں میں جھوٹ
اقتدار کے کھیل میں سب کچھ ہے چھوٹ
حکومت کا “شفافیت” کا نظام بھی کمال کا ہے اتنا شفاف کہ عوام کو کبھی نظر ہی نہیں آتا کہ ان کے پیسے کہاں جارہے ہیں۔
جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ شاید یہ ہے کہ اس کی آڑ میں ہر پانچ سال بعد سیاستدان عوام کو نئے خواب بیچ سکتے ہیں۔ ایک بزرگ سے پوچھا گیا آپ جمہوریت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ وہ بولے، بیٹا، جمہوریت وہ نظام ہے جہاں عوام ہر بار اپنے دکھ درد کا نیا ذمہ دار خود منتخب کرتے ہیں۔
دھاندلی کا شور پھر بھی جیت انہی کی ہے
ہم تو بس تماشا دیکھتے ہیں یہ تماشا پرانی ہے
نظر گل نظر کی نظر میں جمہوریت کو اکثر “انتخابی میلہ” کہا جاتا ہے، کیونکہ ناپرسان یا بحرانستان میں جمہوریت کا مطلب صرف جلسے، ریلیاں اور انتخابی نعرے ہیں۔ عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ ملک کے اصل وارث ہیں، لیکن اقتدار میں آتے ہی وارثوں کو یتیم سمجھ کر بھلا دیا جاتا ہے۔
جمہوریت کا چرچا تو بہت ہوتا ہے، لیکن یہ کاغذی شہزادہ پاکستانی سیاست کی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ جس جمہوریت میں عوام کا مفاد ترجیح ہونا چاہیے، وہاں سیاسی اشرافیہ کے ذاتی مفادات، بدعنوانی، اور طاقت کی
جنگ نے جمہوریت کا مطلب ہی بدل دیا ہے۔
مہم چلائیں گے عوام کو ہم خوشحال کریں گے
سچائی یہ ہے کہ خود کو ہی خوشحال کریں گے
عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے، انہیں صرف جھوٹے وعدے اور دلکش بیانات دیے جاتے ہیں۔ حکومتی ایوانوں میں بننے والے منصوبے اور پالیسیز کاغذ سے باہر کم ہی نکلتے ہیں، اور جو نکلتے ہیں وہ صرف مخصوص طبقے کی بھلائی کے لیے ہوتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں ووٹ ایک تجارت بن چکا ہے۔ الیکشن کا مطلب وہی چند شخصیات یا خاندان ہیں، جو بار بار عوام کے اعتماد کو توڑ کر بھی اقتدار پر براجمان رہتے ہیں۔ ایک عام شہری کے لیے ووٹ دینے کا مطلب “ایک نئے دھوکے کو موقع دینا” بن چکا ہے۔ یہ جمہوری نظام اتنا شفاف ہے کہ عوام کے ووٹ سے زیادہ نوٹ کی قیمت اہم ہو گئی ہے۔
شاید ہی کوئی جمہوری ملک ہو جہاں ہر پانچ سال بعد عوام اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے ان ہی مسائل کو مزید پیچیدہ ہوتا دیکھتے ہوں۔ ووٹ کا حق تو دیا گیا ہے، لیکن یہ حق کتنے ایمانداری سے استعمال ہوتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے الیکشن کے بعد ہونے والی جشن کی ویڈیوز کافی ہیں۔ حکومت کی شفافیت کا دعویٰ کرنے والے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف رہتے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب سیاسی تماشے اور بیان بازی رہ گیا ہے۔ عوام کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان خود اپنی خدمت میں مصروف ہیں۔ تعلیم اور صحت جیسے شعبے تو جیسے بھول ہی گئے ہوں۔ عوام سڑکوں پر بنیادی سہولیات کے لیے احتجاج کرتے ہیں، وزیر مشیر ٹی وی پر اور سوشل میڈیای چمچے سوشل میڈیا عرف مویشی منڈی میں اپنی کامیابیاں گنواتے ہیں۔
جمہوریت کا ایک اہم ستون “احتساب” ہے، احتساب کا مطلب صرف مخالفین کو کٹہرے میں لانا رہ گیا ہے۔ اپنے ہی کرپشن اسکینڈلز کو نظر انداز کرنے والے سیاستدان دوسروں پر الزامات لگانے میں ماہر ہیں۔ عدالتوں میں انصاف کے لیے دہائیاں دینے والے عوام کو سیاستدانوں کی طاقتور وکلا ٹیموں کے سامنے بےبس چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تعلیم، صحت، اور بنیادی سہولیات کا ذکر تو بیانات کی حد تک خوب ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ان شعبوں کی حالت روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ سرکاری اسکولز اور ہسپتال خستہ حال ہیں، لیکن ہمارے نمائندے اپنی اولاد کو بیرون ملک تعلیم دلانے اور اپنا علاج وہاں کروانے میں مصروف ہیں۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لیے دھکے کھاتے دیکھنے والے سیاستدان مہنگے ریسٹورینٹس میں عشائیے کرتے ہیں اور قوم کو کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں۔
سیاسی نظام اتنا مضبوط ہے کہ یہاں غریب عوام کے پاس چناؤ صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ کس کی کرپشن اور جھوٹ زیادہ خوش نما لگتا ہے۔ اپوزیشن کا کام صرف تنقید کرنا رہ گیا ہے، اور حکومت کی پالیسی عوام کے مسائل کے حل کی بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے کے گرد گھومتی ہے۔ سڑکوں پر احتجاج، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کا حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت ایک خواب ہے، جو شاید کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔
اگر سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی تو آج ملک میں یہ حالات نہ ہوتے۔ سیاستدانوں کے لیے اخلاقیات ایک اضافی چیز بن چکی ہے، جو اقتدار کی دوڑ میں کہیں کھو چکی ہے۔
اخلاقیات کا ذکر تو شاید کتابوں میں ہی رہ گیا ہے۔ سیاست اب اصولوں کی بجائے ذاتی مفادات کا کھیل بن چکی ہے۔ بدعنوانی اور ناانصافی کا وہ عالم ہے عوام کو صاف پانی تو نہیں، بدعنوانی کے نت نئے طریقے ضرور سیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر عوام سے مذاق کیا جا رہا ہے۔ ہر حکومت آتی ہے اور جاتی ہے، لیکن عوام کی حالت وہی رہتی ہے۔
عوام ایک بہتر زندگی کے خواب دیکھتے ہیں، اور سیاستدان ان کے خوابوں کو اپنے جلسوں میں نعرے بنا کر پیش کرتے ہیں۔
اگر سیاستدان واقعی مسائل ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر عوامی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا۔ لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ یہ بس خوابوں کی باتیں ہیں۔ عوام کو اب سمجھ آ گیا ہے کہ جمہوریت صرف چند خاندانوں کا کھیل ہے، جس میں عوام کا کردار صرف تالیاں بجانے تک محدود ہے۔
جمہوریت کا اصل چہرہ تب ہی سامنے آئے گا جب عوام کی خدمت کو سیاستدانوں کی پہلی ترجیح بنایا جائے گا، لیکن یہ سب باتیں فی الحال ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔
عوام کو خواب دکھا کر حقیقت کو چُھپایا
وہی سیاسی کھیل جو ہمیشہ سے جیتایا