بلوچستان میں تعلیمی انقلاب، ہزاروں بچے اسکولوں میں داخل
بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے حکومت بلوچستان نے اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے، تعلیم سے محروم بچوں کو اسکول لانے اور غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائیوں کا عمل بھی تیز کردیا گیا۔اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ، مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن منیر احمد نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سال 2024 میں ایجوکیشن فیلڈ آفیسرز کی جانب سے مانیٹرنگ عمل میں لائی گئی،
جس میں طلبا کی اسکولوں میں موجودگی، اسکولوں کی حالت، اساتذہ کی دستیابی سمیت دیگر امور زیر غور رہے۔’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تمام اسکولوں کی مکمل مانیٹرنگ کی گئی۔ اس دوران عملے کی جانب سے 15270 اسکولوں میں 27490 دورے کیے گئے،
ان دوروں کے دوران ہمارے 6125 اساتذہ غیر حاضر پائے گئے۔‘منیر احمد کے مطابق غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی عمل میں لاتے ہوئے 162 کو وارننگ دی گئی، 2153 کو جواب دہی کا کہا گیا، 1124 کو شو کاز نوٹس جاری کیے گئے، 266 کو معطل جبکہ 3273 کی تنخواہیں کاٹی گئیں جبکہ 372 اساتذہ کو نوکری سے برخاست کیا گیا۔
منیر احمد نے بتایا کہ موجودہ تعلیمی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، ملک بھر میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے جبکہ بلوچستان میں 29 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔’وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبے میں اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں تک لانے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے
جس کے لیے ہم نے 2 لاکھ 10 ہزار بچوں کو اسکول لانے کا ہدف مقرر کیا جس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔‘ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے مطابق یہ ٹیمیں ایک سال کے دوران 2 لاکھ 26 ہزار 563 طلبا کو اسکول لانے میں کامیاب ہوئیں۔ ’ہمیں امید ہے کے رواں ماہ کے اختتام تک ہم ڈھائی لاکھ بچوں کو اسکول لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس دوران جہاں وزیر تعلیم راحیلہ درانی اور محکمہ تعلیم نے دن رات کوششیں کیں وہیں یونیسف کے تعاون کے بغیر یہ سب ناممکن ہوتا۔
‘ڈائریکٹر نظامت اسکولز اختر محمد کھیتران نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کے تعلیمی نظام میں کئی مسائل موجود تھے لیکن محکمہ تعلیم کی کاوشوں اور یونیسف کے مشکور ہیں جنہوں نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں احسن قردار ادا کیا۔’دراصل بلوچستان میں بڑے پیمانے پر بچے سکولوں سے باہر ہیں جس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ فاصلے کا زیادہ ہونا سب سے بڑی وجہ تھا،جس پر قابو پانے کے لیے ہم نے صوبے بھر کے لیے 140 بسیں منگوائی ہیں جن میں سے 5 آچکی ہیں جبکہ باقی مرحلہ وار پہنچ جائیں گی۔‘اختر محمد کھیتران کے مطابق گزشتہ 5 سے 6 سال تک اساتذہ کی بھرتیوں کا معاملہ زیر التوا تھا، تاہم آئندہ دنوں میں 8 سے ساڑھے 8 ہزار اساتذہ کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ ’ماضی میں اکثر کتابیں آدھے سال بعد اسکولوں تک پہنچتی تھیں لیکن اس بار تعلیمی سال شروع ہوتے ہی تمام اسکولوں میں کتابیں دستیاب تھیں۔‘