سیدنا عثمان بن عفان ………… ذوالنورین خلیفہ ثا
قال تعالی! ترجمہ! اور جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اورانصار مین سے بھی اور جن لوگوں نے (یعنی بعد میں آنے والوں نے) نیکو کاری (اخلاص) کے ساتھ انکی پیروی کی۔ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے (یعنی اللہ نے) انکے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جنکے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور وہ) ہمیشہ ان میں رہیں گے۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے (سور توبہ آیت ۰۰۱ پارہ ۱۱)قارئین کرام! مندرجہ بالاآیت کریمہ میں خالق کائنات نے محبوب کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام جانثار ساتھیوں کی عظمت و شوکت کی شہادت دیتے ہوئے جہاں انکے ایمانوں کی تصدیق فرمائی وہیں ان پاکباز ہستیوں سے اپنی رضا مندی و خوشنودی کا بھی اظہار فرما دیا تاکہ کسی ذہن میں جماعت صحابہ کرام رضوان للہ اجمعین کے متعلق کوئی شک شبہ باقی نہ رہے۔ یوں تو تمام صحابہ کرام ہی آسمان نبوت کے چمکتے ستارے ہیں البتہ بدری صحابہ جنہوں نے پہلے معرکہ حق و باطل یعنی غزوہ بدر میں حصہ لیا انکا مقام نہایت افضل و اعلیٰ ہے۔ ان نفوس قدسیہ میں سابقون الا ولون کو انتہائی قدر و منزلت حاصل ہے جیسا کہ مندرجہ آیت کریمہ میں وضاحت کی گئی ہے۔ مہاجرین و انصار بننے والے اور مصائب و آلام جھیلنے والے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جہاں ایمان و اخلاص کے پیکر ٹہرے وہیں خالق کائنات نے انکے لئے ابدی آرام و چین والی جنتوں کی بشارت دے دی۔ اسی طرح ان پیاری ہستیوں میں سے مزید دس صحابہ کرام جنہیں زبان وحی ترجمان صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی انکا مقام و مرتبہ باقی صحابہ کرام سے انتہائی بلند وبالا ہے اور ان دس صحابہ کرام میں بھی خلفائے راشدین سیدنا ابو بکر صدیق سیدنا فاروق اعظم سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی فضیلت و بزرگی پوری امت پر بلند تر ہے۔سیدنا عثمان بن عفان تیسرے خلیفہ راشد سابقون الا ولون میں چوتھے فرد جنہوں نے اسلام کے دامن سے وابستگی اختیار کی۔ قریش مکہ کی ممتاز شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپکا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے جبکہ آپکی نانی ام حکیم نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب کی سگی بہن اور آپکی پھوپھی تھیں۔ سیدنا عثمان بن عفان واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ۷۷۵ئ میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اعلان نبوت کے وقت اہل مکہ میں صرف ۰۷ افرد پڑھنا لکھنا جانتے تھے جن میں آپکا بھی شمار ہو تا تھا۔ آپکاپیشہ کپڑے کی تجارت تھا۔ صداقت دیانت راستبازی اور غربائ و مساکین وغیرہ کی امداد کی وجہ سے آپکا لقب غنی ہو گیا۔ آپ ۴۳ سال کے تھے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ سیدنا ابو بکر صدیق کی تبلیغی کا وشوں سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔چونکہ آپکی اہلیہ محتر مہ سیدہ رقیہ بیمار تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپکو انکی تیمار داری کا حکم دیا تھا۔ جس وقت بدر کی فتح کی خوشخبری مدینہ منورہ پہنچی۔ آپ سیدہ رقیہ کی تدفین میں مصروف تھے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان غنی کو مال غنیمت سے حصہ عطا فرما یا تاکہ کوئی آپکو طعنہ نہ دے سکے۔ بعد ازاں رحم اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری صاحبزادی سیدہ ام کلثوم کا نکاح سیدنا عثمان سے فرما دیا جن سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ آپ کا لقب ذوالنورین پڑ گیا کہ کسی بھی نبی نے اپنی دو بیٹیاں کسی شخص کو نہ بیاہی تھیں۔ چند برس کی رفاقت کے بعد سیدہ ام کلثوم بھی راہی ملک عدم ہوئیں تو آقا علیہ الصلوٰ والسلام نے ارشاد فرمایا اگر میری کوئی اور بیٹی بھی بن بیاہی ہوتی تو عثمان کے حبالہ عقد میں دے دیتا۔ اس ارشاد عالی سے سیدنا عثمان کی فضیلت و بزرگی واضح ہوجاتی ہے۔اہل ایمان مہاجرین و انصار مدینہ منورہ کی نوزائیدہ نظریاتی مملکت میں ابھی صحیح طور بسنے نہیں پائے تھے کہ میٹھے پانی کی قلت کا سامنا در پیش ہوا۔ مضافات مدینہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو اپنی عداوت کے سبب اہل اسلام کو پانی فروخت کرنے میں طرح طرح کی تکالیف پہنچایا کر تا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی مومن اہل اسلام کے لیے اس کنویں کو خرید کر وقف کر دے تو میں اس کو جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ سیدنا عثمان غنی نے ۲۱ ہزار درہم میں پہلے نصف بعد ازاں بقیہ آدھا کنواں یہودی سے ۸ ہزار درہم میں لے کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ اسی طرح زبان وحی ترجمان سے غزوہ تبوک کے موقع پر جب سیدنا عثمان
نے ستر ہزار درہم ایک ہزار اونٹ ستر ہزار گھوڑے، سات سو اوقیہ چاندی اور بعض روایات کے مطابق ایک ہزار درہم نقد پیش کئے تو ایک مرتبہ پھر جنت کی بشارت ملی۔ ۶ ھ میں جب امام الا نبیائ صلی اللہ علیہ وسلم ادائیگی عمرہءکی خاطر ۰۰۴۱ یا ۰۵۵۱ صحابہ کرام کے ہمراہ مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے اور حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کفار مکہ حرم میں داخل نہیں ہونے
دیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان کو سفیر بنا کر روانہ فرمایا۔ وہاں انہوں نے آپ کو روک لیا تو مسلمانوں میں خبر پھیل گئی کہ سیدنا عثمان شہید کر دئیے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کو ایک درخت کے نیچے جمع فرمایا
اور بیعت لی کہ ہم یہاں سے عثمان کے قتل کا بدلہ لئے بغیر نہیں جائیں گے۔ قرآن مجید میں اس منظر کو یوں پیش کیا گیا ہے؛۔
ترجمہ! بے شک جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ تحقیق وہ اللہ سے بیعت کر تے ہیں اللہ کا ہاتھ انکے ہاتھوں پر ہے پھر جو عہد توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے اور جو اس بات کو جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم عطاکرے گا (سور فتح آیت ۰۱ پار ۲۲) آگے فرمایا ترجمہ! یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا جبکہ وہ درخت کے نیچے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر رہے تھے اور جو (صدق) و خلوص) انکے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر اطمینان نازل فرمایا ور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی (یعنی فتح خیبر) بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کر یں گے اور اللہ غالب حکمت والا ہے (سور فتح آیت ۹۱۔ ۸۱ پارہ ۲۲) یہ آیات کریمہ سیدنا عثمان غنی سے متعلق نازل ہوئیں اور اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اپنا اور بائیں ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دے کر صحابہ کرام سے بیعت لی جسکے متعلق رب کائنات نے اعلان فرمایا ان سب پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ سیدنا عثمان بن عفان کے ح±بِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ جس ہاتھ کو آقا علیہ الصلوٰ و السلام نے آپکا ہاتھ قرار دیا وہ کبھی بھی شرمگاہ کو نہ لگایا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کر تی ہیں ترجمہ! ایک دن ابوبکر و عمر تشریف لائے اور بات کر کے چلے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی تشریف فرما رہے۔ جب عثمان آئے تو آقا علیہ الصلوٰ و السلام اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کئے چونکہ چادر ہٹی ہوئی تھی۔ سیدہ عائشہ نے پوچھا تو فرمایا کیا میں ایسے شخص سے حیانہ کرو ں جس سے فرشتے بھی حیا کر تے ہیں (ترمذی)سیدنا علی المرتضیٰ فرماتے ہیں جس نے دین عثمان سے بیزاری کا اظہار کیا وہ ایمان ہی سے بیزار رہا (رحم للعالمین)سیدنا عثمان کو اللہ تعالیٰ نے اوصاف حمیدہ سے متصف کیا تھا۔ خشیت الٰہی اور قیامت کا خوف بہت زیادہ تھا۔ حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ادب و احترام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حد درجہ کمال پر تھا۔ اتباع سنت کا التزام رکھتے اور فیاضی تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ شرم و حیا میں بے مثل تھے۔ تواضع اور صبر و تحمل کا عالم یہ تھا کہ غلاموں اور لونڈیوں کی موجودگی کے باوجود تہجد کے وقت انہیں نہ جگاتے بلکہ خود ہی پانی لے کر وضو کر لیتے اور فرماتے یہ انکے آرام کا وقت ہے کیوں زحمت دی جائے۔ سادگی، خود داری، تقویٰ، طہارت، انفاق فی سبیل اللہ میں ہمیشہ پیش پیش رہتےآپ کے دور خلافت میں اسکندر یہ کی بغاوت کچلی گئی اور اسے دوبارہ فتح کیا گیا۔ لیبیا اور تیونس، طرابلس کے بعد مراکش اور الجزائر فتح کئے گئے۔ اسی طرح قبرص، اوڈوس اور جزیرہ صفلیہ کو رومیوں سے فتح کیا۔ ایران میں یزد گرد کی بغاوتیں کچلی گئیں۔ عبد اللہ بن عامر گونر بصرہ نے سخت جنگ کے بعد دوبارہ فارس پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح انہوں نے ۰۳ ھ میں طبر ستان، خراسان، ہرات، سیستان اور کابل فتح کر لیا اور نیشا پور تک جا پہنچے۔ آپ نے اپنے دور میں مدینہ منورہ کو ہر
قسم کی آلودگی سے پاک رکھنے کی کوشش کی۔ ۹۲ ھ میں مسجد نبوی سے ملحقہ زمین خرید کر مسجد میں توسیع کی۔ آپکا سب سے بڑا کارنامہ امت کو ایک قرت قرآن پر جمع کرنا تھا جسکی وجہ سے سیدنا عثمان کو جامع القرآن بھی کہا جا تا ہے۔امن و خوشحالی کا دور دورہ تھا اور ایک مکمل فلاحی و رفاہی ریاست قائمتھی۔آپکی مدت خلافت ۲۱ سال ہے۔ ۶ سال امن سے گزرے تاہم اگلے چھ برس سخت انتشار فتنہ و فساد بر پا رہا۔مو¿رخین نے اس کی وجوہات بتائی ہیں کہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد ختم ہو چکی تھی اور دیگر بڑھاپے کی وجہ سے گوشہنشین ہو گئے تھے۔ سیدنا ابوبکر کے مشورے اور مسلمانوں کی پسندیدگی کی وجہ سے امامت و خلافت قریش میں محدود ہو گئی وہ دوسروں کو محکوم سمجھتے۔ فتوحات کی وجہ سے بہت سی دیگر اقوام بھی ملت اسلامیہ کا حصہ تو تھیں لیکن بعض انتقام کا جذبہ بھی رکھتی تھیں۔ سیدنا عثمان سخی تھے اور ذاتی دولت سے عزیز و اقارب کی مدد کر تے جس پر شر پسندوں نے واویلا مچایا اور اقربا پروری کا الزام لگایا۔ مجوسی ایسی حکومت چاہتے تھے جو انہیں زیادہ مراعات دے یہودیوں نے اہل اسلام میں خوب انتشار پھیلایا ابن سبا کی تحریک نے اسمیں بڑا کام کیا۔ مصر، کوفہ، اور بصرہ کے لوگ بغاوت کر گئے اور انہوں نے مدینہ منورہ میں شورش برپا کی اور قصر خلافت کو گھیرے میں لے لیا اور آپکو محصور کر دیا گیا۔ صحابہ کرام نے قلع قمع کرنے کی اجازت چاہی تاہم آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں مدین الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خون بہانے والا پہلا شخص نہیں بننا چاہتا۔باغی ۰۴ دن تک محاصرہ کئے رہے یہاں تک کہ وہ بئر رومہ جس ´پر