کون بنے گا نیا آرمی چیف متوقع فیصلہ اور چی می گوئیاں ؟؟؟

0 262

پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کا سخت شکار ہے تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں نیا سیاسی پارتی گروپ پی ڈی ایم کا حکومت بن گیا رواں سال میں ملکی نظام میں تبدیلی کے باعث عوام کو مزید مشکلات کی طرف دھکیل دیا جارہا ہے عمران نیازی پر نااہلی اور موت کا حملہ اور ملکی اور غیر ملکی ادارے اور میڈیا تبصرے کرنے لگے عمران خان توشہ خانہ کیس اور نیا ارمی چیف کا تعناتی کو میڈیا کے ذریعے اتنا واضع کیا کہ اب موجودہ وزیر اعظم کیلئے بھی مشکل رہا کہ کس کو تعینات کیا جائے پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ گذشتہ سال سے ہی خبروں، تجزیوں اور بحث کا حصہ بنا رہا لیکن گذشتہ رات سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے عام انتخابات کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی تجویز نے ایک سیاسی اور قانونی بحث سمیت نئے سوالات کو جنم دیا ہےکہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی عام انتخابات کے بعد نئی منتخب حکومت کو کرنی چاہیے اور تب تک کے لیے قانون میں کوئی گنجائش نکالی جا سکتی ہے
رواں ماہ کی 29 نومبر کو پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ان کے مختلف فارمیشنز کے الوداعی دورے جاری ہیں
آرمی چیف کے ساتھ فوج کے سربراہان میں شامل چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا بھی رواں سال میں ہی اپنے عہدے سے فارغ ہوجائگا
وموجودہ حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرڈ ہونے سے قبل فوج کے نئے سربراہ کے تقرری کا اعلان کرنا ہے جس میں چھ سینیئر ترین لیفٹینٹ جنرلز زیر غور لارہے ہیں
پاکستان میں اس وقت اور اہم تقرری کے میں عمران خان وفاقی حکومت اور باقی سیاسی پارٹیوں کے سربراہاں میدان میں شامل ہے
اس لئے ارمی چیف کا تقرری بین القوامی مسلئہ بن گیا کیونکہ عمران خان نے اس مسلئے کو انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے لایا اور وزیر اعظم کے اختیارات کو رد کیا جو ائین کی منافی ہے کیونکہ ائین پاکستان جس میں عمران خان کی حکومت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن کے وقت سپریم کورٹ کی ہدایت پر من مانی ترمیم کی تھی جس کی روح سے ارمی چیف کا تقرری وزیراعظم کو اختیار ہے مگر اب کون ہے جو عمران خان کو سمجائے
اگر شہباز شریف کی وزارت اعظمی ۔عمران خان کی نظروں میں متنازعہ ہے تو عمران خان کی وزارت عظمی بھی شہباز شریف اصف زرداری مولانا فضل الرحمن سراج الحق اسفندیار ولی محمود خان اچکزئی حتی کی ایم کیو ایم کے نظروں میں بھی متنازعہ ہے
تو اب نئے ارمی چیف کی تقرری یا انہیں توسیع دینے کا اختیار وزیر اعظم سے کوئئ نہیں چیھن سکتا
اس وقت اس مسلئے کے حل کیلئے سزا یافتہ لیڈر نواز شریف کی مداخلت جس کا کوئی قانونی حثیت نہیں
اس کیلئے پاکستانی ائین وقانون کے تقاضے شامل ہے جس میں آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم کی صوابدید پاکستان میں کچھ اہم ترین سمجھے جانے والے عہدے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 243 میں بہت مختصر سا طریقہ کار درج آرٹیکل 243 کی شق تین کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت بری، بحری اور فضائی تینوں سروسز کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو تعینات کرے سکتا ہے
پچھلے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے عمل تقرری میں سارا اختیار وزیراعظم کا ہے اور جانے والے آرمی چیف کا اس میں زیادہ کردار نہیں ہوتا، تاہم ماضی میں وزرائے اعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف سے ایک غیر رسمی مشاورت کرتے رہے ہیں۔
’آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق سبکدوش ہونے والے آرمی چیف وزیراعظم کو سینیئر ترین جرنیلوں کی ایک فہرست دیں گے جن میں سے وہ آرمی چیف کے امیدوار کا انتخاب کر کے صدر پاکستان کو منظوری کے لیے درخواست اور ناموں کا فہرست بھیجیں گے
سابق سیکریٹری دفاع کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات صرف چند دن پہلے ہی نام کا اعلان کیا جاتا ہے جیسا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کا اعلان صرف دو دن پہلے کیا گیا تھا مگر اس دفعہ سیاسی کشمکش کی وجہ سے مختلف نام تجویز کررہے ہیں
آرمی سے متعلق قوانین کے ماہر کرنل انعام الرحیم اپنے بیان میں کہا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے آئین میں طریق کار درج ہے تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات آرمی ایکٹ میں بھی موجود نہیں ہیں
انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف بننے کے لیے ایسی کوئی قدغن آرمی ایکٹ میں موجود نہیں کہ متعلقہ جنرل ایکسٹینشن پر نہ ہو
جنرل پرویز مشرف کے بقول ’انہیں تعیناتی سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے بتا دیا تھا کہ انہیں آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہے
ان کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے قواعد مبہم ہیں سابق آرمی چیف اور فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں اکتوبر 1998 اپنی تعیناتی سے قبل اچانک وزیراعظم کے دفتر سے فون آیا کہ آکر ملیں۔‘
’اس پر وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو بتائے بغیر فوراً وہاں پہنچے تو انہیں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ انہیں آرمی چیف تعینات کیا جا رہا ہے۔‘
’بعد میں باہر آکر انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت کو بتایا کہ انہیں آرمی چیف تعینات کر دیا گیا ہےان کا کہنا ہے کہ ’اس عمل میں کوئی سمری نہیں بھیجی گئی تھی
اس دفعہ ارمی کی تقرری میں حکومت کے لیے تقریباً وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت کے سب سے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کرے کہ پاکستان کا اگلا آرمی چیف کس کو مقرر کرنا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما اور وفاقی کابینہ کے رکن نے پس پردہ ہونے والی گفتگو کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اگست کے آخر تک تقرری پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر ستمبر کے وسط تک کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ وہ حتمی فیصلہ کرنے سے قبل حکمراں اتحاد میں شامل اپنے اتحادیوں سے مشورہ کریں گے، تاہم پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایک ذریعے نے کہا ہے کہ پارٹی شاید اس فیصلے کا حصہ نہیں بننا چاہے گی کیونکہ یہ فیصلہ کرنا وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔
آئین کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر، وزیر اعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے
اس وقت زیر غور نام لایا جارہا ہے جس لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیرجب اگلے چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر کا فیصلہ کیا جائے گا تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر لاٹ میں سب سے سینئر ہوں گے، گو کہ ستمبر 2018 میں انہیں دو اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی لیکن انہوں نے دو ماہ بعد چارج سنبھالا جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ان کا چار سالہ دور 27 نومبر کو اس وقت ختم ہوجائے گا جب موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اپنی فوج کی وردی اتار رہے ہوں گے، چونکہ دو فور اسٹار جنرلز کے تقرر کے لیے سفارشات اور فیصلے کچھ دیر پہلے کیے جانے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو کرنا ہے کہ آیا ان کا نام شامل کیا جانا ہے یا نہیں اور حتمی فیصلہ وزیر اعظم کو کرنا ہے۔ وہ ایک بہترین افسر ہیں لیکن اس تقرر کے معاملے میں تکنیکی پیچیدگیوں کے سبب انہیں انگریزی محاورے کے مطابق ‘ڈارک ہارس’ کہا جاسکتا ہے یعنی وہ بھی اس عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار ہیں
لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ایک ہی بیچ سے تعلق رکھنے والے 4 امیدواروں میں سب سے سینئر ہیں۔ ان کا تعلق سندھ رجمنٹ سے ہے جو کہ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کا پیرنٹ یونٹ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا فوج میں بہت متاثر کن کریئر رہا ہے اور گزشتہ 7 برسوں کے دوران انہوں نے اہم لیڈرشپ عہدوں پر بھی کام کیا ہے۔ ان کو جنرل راحیل شریف کے آخری دو برسوں میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کی حیثیت سے توجہ ملنا شروع ہوئی۔ اپنی اس حیثیت میں وہ جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف کی اس کور ٹیم کا حصہ تھے جس نے شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف آپریشن کی نگرانی کی اور کواڈریلیٹرل کوآرڈینیشن گروپ (کیو سی جی) میں بھی کام کرتے رہے۔ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکا پر مشتمل اس گروپ نے ہی بین الافغان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، سرتاج عزیز کی زیر قیادت گلگت بلتستان میں اصلاحات کے لیے بننے والی کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔
لفٹیننٹ جنرل اظہر عباس موجودہ امیدواروں کے مابین بھارت کے امور پر سب سے زیادہ تجربہ کار فرد ہیں۔ اس وقت وہ چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس) ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جی ایچ کیو میں آپریشنز اور انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹس کی نگرانی کرتے ہوئے عملی طور پر فوج کو چلاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ 10 کور کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ 10 کور راولپنڈی میں تعینات ہوتی ہے لیکن اس کی اصل توجہ کشمیر پر ہوتی ہے اور یہ سیاسی حوالے سے بھی اہم کور ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں موجودہ آرمی چیف کا مکمل اعتماد حاصل
اس میں لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اپنا پنجہ ازمائی کررہا ہے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.