کتب بینی اور آج کا نوجوان
نام : شعیب خان شاکر
فون :03060921891
Shoaibshakir17@gmail.com
ٹیکنالوجی کے اس انقلابی دور میں جہاں سہولیات زندگی کے ہر میدان میں دستیاب ہیں اور آسانیاں پیدا ہورہی ہیں ۔اس دور جدید میں کتب بینی اور کتاب سے محبت دم توڑتی چلی جارہی ہے کتابیں اب صرف لائبریریوں یا چند شوق مطالعہ رکھنے والے افراد تک محدود ہوچکی ہیں ۔ کتاب جو خود اپنے اندر ایک وسیع دنیا کا حامل ہوتی ہے آج کے نوجوان سے شکوہ بے رخی کررہی ہے یوں تو مسلمانوں کا ماضی علم اور کتاب سے مضبوط تعلق رکھتا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ کتابیں تو مسلمانوں کی میراث ہیں بلکہ جدید علوم کا سر چشمہ مسلمان مصنفین کے کتب ہی ہیں
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی کے یلغار کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی اور کچھ تو مطالعے میں کمی کی وجہ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قرار دے رہے ہیں اور چند لوگ کہتے ہیں کہ کتاب چونکہ عام آدمی کے قوت خرید سے باہر ہے اس لیے مطالعے کے رجحان میں کمی دیکھنے کو ملی کتاب اور انسان کا تعلق بہت پرانا ہے یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور خود آگاہی اور اردگرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہے کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے
جس طرح پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے اسی طرح کتاب کے بغیر کے بقاء اور انسانی ترقی کا تصور محال ہے ۔
لیکن دور حاضر میں کتاب کی اہمیت اور خاص کر نوجوانوں میں مطالعے کی کمی کا رجحان قابل توجہ ہے آج کا نوجوان جو اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ موبائل اور اس سے جڑی دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صرف کر رہا ہے کتاب سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے
جس معاشرے میں مطالعہ اور تحقیق رک جائے تو وہ معاشرہ ذہنی و عقلی طور پر ساکن ہوجاتا ہے بلکہ وہ معاشرے جن میں مطالعہ اور مشاہدے کی روش ہو علم و آگاہی کے خوش گوار تبدیلیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس بات سے شاید کوئی اختلاف کرے کہ قوموں کی ترقی اور عروج کتاب دوستی اور علم سے وابستہ ہے ۔کتب بینی کی عادت کو نوجوان نسل میں پروان چڑھانے کی شدید ضرورت ہے بلکہ اس میں والدین کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں میں اس عادت کو ابتدا ہی سے پروان چڑھائیں انسانی زندگی پر مطالعے کے انتہائی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں آج کے نوجوان میں شوق مطالعہ کو اجاگر کرکے منفی اور شدت پسندانہ رجحانات کو کم کیا جاسکتا ہے ویسے تو آج کے نوجوان طالب علم کی حالت یہ ہے کہ نصابی کتب کھولنے کی زحمت تک نہیں کرتے بلکہ زیادہ تر نوٹس پر ہی اکتفا کرتے نظر آتے ہیں
مصروف ترین اور ترقی یافتہ اقوام نے اب تک کتب سے اپنا ناطہ نہیں توڑا ۔ بس سٹاف ، ریلوے سٹیشن اور ہوائی اڈوں پر بک سٹال لگے نظر آتے ہیں جہاں کتب کے شیدائی مطالعے میں مصروف نظر آتے ہیں
یوں تو ہم ہر محفل میں یہ بحث کرتے ہیں کہ سماج کو مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔مگر تبدیلی آئے تو کس طرح ؟ جب نوجوان شعور سے عاری ہونگے
مصیبت تو یہ ہے شعور علم کا محتاج ہوتا ہے اور علم کا تعلق بلاواسطہ کتب سے ہے مطالعے کی روایت اخلاقی ، تہذیبی ،معاشی، سائنسی اور دیگر علوم و فنون کو سنوارنے کا کام سرانجام دیتی ہے مطالعے سے ذہن کی آبیاری ہوتی ہے یہ معاشرے کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ذہنی اور معاشرتی ارتقاء کے مراحل کو کتب بینی کے بغیر طے کرنا نا ممکن ہے کوئی بھی تہذیب اور قوم کسی نہ کسی کتاب کی تابع ضرور ہوتی ہے
اگر ہمیں دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس چاہیے تو اپنی نوجوان نسل کو کتاب کی جانب راغب کرنا ہوگا علم و آگہی کے دامن کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا کتب بینی کو اپنی مصروفیات کا اہم جزو بنانا ہوگا اور اس روایت کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا
امریکی مصنف رے بریڈ بیوری لکھتے ہیں کہ “کسی ثقافت کو ختم کرنے کے لیے آپ کو کتابیں جلانے کی ضرورت نہیں بلکہ کتاب پڑھنے والوں کو کتاب پڑھنے سے روک دیں
سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر