رحمت اللعالمینﷺ کا سفر مبارک، غار ثور سے مدینہ تک (17)

0 113

چوتھے دن رسول اکرمﷺ یکم ربیع الاول پیر کے دن غار ثور سے باہر تشریف لائے۔ عبد اللہ بن اریقط جس کو راہنمائی کے لیے کرایہ پر آنحضرتﷺ نے نوکر رکھ لیا تھا، وہ طے شدہ فیصلے کے مطابق دو اونٹنیاں لے کر غار ثور پر حاضر تھے۔ رحمت اللعالمینﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے، دوسری پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور آپ کے غلام عامر بن فہیرہ ؓ بیٹھے۔ اور عبد اللہ بن اریقط آگے آگے پیدل چلنے لگا، اور عام راستہ سے ہٹ کر ساحل سمندر کے غیر معروف راستوں سے سفر شروع کر دیا۔
(سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 165)
ام معبد کی بکری:
دوسرے روز مقام غدید میں ام معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کے مکان پر آنحضرتﷺ کا گزر ہوا۔ ام معبد ایک ضعیفہ عورت تھی، جو اپنے خیمہ کے باہر بیٹھی رہا کرتی تھی، اور مسافروں کو کھانا پانی دیا کرتی تھی۔ نبی کریمﷺ نے اس سے کچھ کھانا خریدنے کا قصد کیا، مگر اس کے پاس کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ رسالت مآبﷺ نے دیکھا کہ اس کے خیمہ کے ایک جانب ایک بہت لاغر بکری کھڑی ہے۔ دریافت فرمایا کیا، یہ دودھ دیتی ہے؟ ام معبد نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں۔ ام معبد نے اجازت دے دی، اور رحمت اللعالمینﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر جو اس کے تھن کو ہاتھ لگایا، تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے، اور اتنا دودھ نکلا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے، اور ام معبد کے تمام برتن دودھ سے بھر گئے۔ یہ معجزہ دیکھ کر ام معبد اور اس کے خاوند دونوں مسلمان ہو گئے۔
سراقہ کا گھوڑا:
جب اُم معبد کے گھر سے رحمت اللعالمینﷺ آگے روانہ ہوئے، تو مکہ کا ایک مشہور شہسوار سراقہ بن مالک بن جعثم تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر تعاقب کرتا نظر آیاـ
(سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 167)
سید عالمﷺ غدیر سے آگے بڑھ چکے تھے، اور خدا کے بھروسے اور اطمینان سے مدینہ کا راستہ طے کر رہے تھے۔ نبی کریمﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرمائے جا رہے تھے، جبکہ سراقہ دور سے تعاقب کرتا نظر آرہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ قریب پہنچ گیا، اس کا گھوڑا سر کے بل گرا، اور وہ زمین پر گر پڑا، وہ پھر اٹھا، اور سو اونٹوں کے لالچ نے اسے اس بات پر ابھارا، کہ وہ پھر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا، اور آپﷺ کی گرفتاری کے ارادے سے چل پڑا، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا، یارسول اللہﷺ دشمن ہمارے قریب ہے۔ رسالت مآبﷺ نے فرمایا:
لا تحزن ان اللہ معنا (سورہ توبہ) گھبراؤ نہیں, خدا ہمارے ساتھ ہے.
رحمت اللعالمینﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ اس دشمن کے شر کو جس طرح تو چاہتا ہے، دور فرما۔ دعا نے شرف قبولیت اختیار کی، اور سراقہ کے گھوڑے کے چاروں دست و پا زانوؤں تک زمین میں گڑ گئے۔ سراقہ چلا اٹھا؛ اے محمد(ﷺ) میں جانتا ہوں، کہ یہ آپ کی دعا کا اثر ہے۔ اب دعا فرمائیے, کہ میرا گھوڑا آزاد ہو جائے، مجھے آپ سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپس چلا جاؤں گا، اور جو شخص پیچھے آرہا ہو گا، اسے بھی واپس لے جاؤں گا۔
رسالتﷺ نے دعا فرمائی، اور فی الفور گھوڑے کے پاؤں زمین سے باہر نکل آئے۔ پھر سراقہ نے کہا اے محمد (ﷺ) میں اپنی بصیرت سے دیکھتا ہوں، کہ تیری شمع نبوت کی شعاعیں تمام دنیا کو منور کریں گی۔ مجھے عہد نامہ عطا فرمائیے، کہ جب آپ کی عزت و جلال کا جھنڈا ثریا کو چھونے لگے، تو میں اس کے وسیلہ سے آپ کی بارگاہ جلال میں راہ پا سکوں۔ سید المرسلینﷺ نے پوچھا، اے عامر بن فہیرہ ؓ کیا تیرے پاس قلم و دوات ہے؟ عرض کیا ہاں۔ عامر بن فہیرہ ؓ نے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امان نامہ لکھا، اور اسے دے دیا۔ جب سراقہ واپس لوٹا، تو بہت سے متلاشی اس راستہ پر اس کے پیچھے آرہے تھے، سراقہ جس کے پاس پہنچا، اسے کہتا کہ میں بھی محمد(ﷺ) کی طلب میں اس راستہ میں آیا تھا، مجھے ان کا کوئی نشان نہیں ملا، اور لوگوں کو واپس کیے جاتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد جب آنحضرتﷺ غزوہ حنین سے لوٹے، تو مقام جعرانہ میں آپ کی خدمت میں سراقہ حاضر ہوا، اور امان نامہ پیش کیا، اور آپ نے فرمایا، آج نیکی اور وفا کا دن ہے، اسی جگہ دولت اسلام سے بہر مند ہو۔
(معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد سوم صفحہ 19 تا 20)

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.