کوئٹہ کا متنازعہ ادبی میلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ فرید
وادیء کوئٹہ نصیر نوری کے دورِ حکومت میں تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا اور اِس سے قبل زمانہ مہرگڑھ میں چار تہذیبوں کا مسکن مانا جاتا تھا ۔
خضدار اور قلات میں ادبی و علمی مجالس کا رواج تھا پھر
برٹش دور میں لورالائی جو “لورلئیے” کہلاتا تھا ادبی علمی اور ثقافتی حوالے سے اپنی تاریخ رکھتا ہے ۔
بلوچستان میں باقاعدہ مشاعروں کا آغاز 1914ء میں سردار یوسف پوپلزئی نے کیا اِس طرح ہمیں بلوچستان میں کثیرالالسانی ادب کے سْوتے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں ۔ تاہم عصرِ حاضر میں بلوچستان کے اہلِ قلم کو خفگی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک بیرونِ صوبہ سے آئے شخص نے دو روزہ ادبی میلے کا اعلان کر دیا اگرچہ یہ ایک مستحسن اور خوش آئند اقدام تھا تاہم کوئٹہ کی ادبی تنظیمات اور اْن کے سرکردہ عہدیداروں نے مذکورہ ادبی میلے کو متنازعہ قرار دے دیا ۔ اْن کا موقف تھا کہ ایک پسماندہ اور غریب صوبے کے سرکاری خزانے سے کثیر رقم مختص کرنا اْس مفلس عوام سے زیادتی کے مترادف ہے جن کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے ، گیس کے بلوں کی ادائیگی کے پیسے نہیں ، اور عدالتوں میں کیس دائر ہیں ۔
صحت اور تعلیم کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں ۔
اِس صورتِ حال میں ادبی میلے کے نام پر محض دو دنوں میں 2 کروڑ روپے سے زائد فنڈز کی بندربانٹ قابلِ مذمت ہی نہیں قابلِ گرفت بھی ہے ۔
اِس ضمن میں دائرہ علم و ادب پاکستان کے صدر کامران قمر کو شدید احتجاچ تھا اور انھوں نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا قانونی کارروائی کا عندعیہ بھی دیا ۔انجمنِ ادبِ بلوچستان کی صدر تسنیم صنم نے مشاعرے کا بائیکاٹ کیا اور وقاص کاشی نے مذمتی بیان جاری کیا ، معروف شاعرہ جہاں آراء تبسم نے بھی بلوچستان کے حقیقی ادباء و شعراء کو نظر انداز کرنے اور بلخصوص خواتین شاعرات کو اگنورکرنے پر صدائے احتجاج بلند کی , اِس طرح ایک متنازعہ ادبی میلہ جو پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے زیرِ اہتمام بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ، ٹیکنالوجی انجیئرنگ اینڈ منیجمنٹ سائنسز( بیوٹمز) بلیلی کوئٹہ میں منعقد ہوا ۔
بیوٹمز کے ارفع کریم ایکسپو سینٹر (ہال) کو خوبصورتی سے آراستہ کیا گیا تھا جہاں مختلف موضوعات پر 14 سیشن ہو ئے ۔
ادبی میلے کی افتتاحی تقریب کے مہمانِ خاص بلوچستان صوبائی اسمبلی کے اسپیکر عبدالخالق خان اچکزئی تھے . جبکہ احمد شاہ نے استقبالیہ خطاب کیا ۔
کوئٹہ لٹریری فیسٹیول میں شمولیت کیلیے شائقین کی رجسٹریشن قبل از وقت روک دی گئی کیونکہ پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے سربراہ کے بقول رجسٹریشن کرانے والوں کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز ہو گئی تھی بعد ازاں اہلِ قلم کو بغیر رجسٹریشن کے بھی آنے کی اجازت دی گئی تاہم سیکورٹی کے سخت انتظامات کئیے گئیے تھے اور شرکاء کو ایک کلو میٹر دور بارکنگ کیلیے روک دیا گیا جہاں سے پیدل بیوٹمز تک جانا پڑا ۔
فیسٹیول میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔
جنھوں نے خوب انجوائے کیا ۔
میلے میں بہت سے اسٹالز شائقین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کراتے رہے ۔ اِن میں سب سے بہترین اسٹال پریس فار پیس فاؤنڈیشن کا تھا جہان قابلِ مطالعہ ، نایاب اور معیاری کتب برائے سیل رکھی گئی تھیں اِس اسٹال پر ہماری لکھاری بہن عالیہ بٹ موجود تھیں جو اسٹال پر آنے والوں کو فلسطین سے یکجہتی کے طور پر رومال بھی پیش کر رہی تھیں ۔
لیٹریری فیسٹیول میں ادب ، ثقافت ، صحافت ، آثار قدیمہ ، سائنس ، ڈارامہ ، گڈگورننس ، موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحول ، مشاعرہ اور میوزک کے علاوہ کوئٹہ شہر سے متعلق کچھ یادیں اور دانیال طریر کیلیے ایک نشست مخصوص کی گئی تھی ۔
ادبی میلے کے مختلف سیشن میں گفتگو کرنے والوں میں انور مقصود سب سے زیادہ شرکاء کی دلچسپی و توجہ کا محور بنے رہے ۔
ادب کے حوالے سے منعقدہ نشست میں آغا گل ، وحید ظہیر ، نصیب اللہ سیماب ، محسن شکیل اور دیگر اہلِ قلم نے کھل کر اپنا موقف پیش کیا ۔ ڈارامہ اور فلم پر ماہرہ خان ، سہیل احمد بشریٰ انصاری اور جمال شاہ پینل پر موجود تھے دورانِ گفتگو احمد شاہ نے اعلان۔کیا کہ بلوچستان کے موضوع پر وہ فلم پروڈیوز کرینگے جس میں ماہرہ خان اداکار ہونگی ۔ اِس سیشن کی میزبانی کے فرائض وجاہت خان نے انجام دئیے ۔ فیسٹیول میں مشاعرے کا اہتمام بھی تاہم کوئٹہ کے صرف چار شعراء کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی جن میں بیرم غوری ، انجیل صحیفہ ، تسنیم صنم اور صادق مری شامل تھے ۔ مشاعرے کی نظامت حامد بلوچ کے ذمہ تھی ۔
صحافت کے حوالے سے سیشن کے شرکاء میں شہزادہ ذوالفقار ، سلیم شاہد ، مظہر عباس , سلیم صافی پیش پیش تھے ۔
اسی طرح کوئٹہ شہر کا ماضی اور بلوچستان کی سیاست پر ثناء بلوچ ، ڈاکٹر عبدالمالک ، نوابزادہ لشکری ریئسانی , شمس الدین ، احمد شیخ اور حفیظ جمالی کے علاوہ فواد حسن فواد نے اظہارِ خیال کیا ۔
دانیال طریر کے فن و شخصیت پر بھی ایک گوشہ مخصوص تھا جس میں بلال اسود ، قندیل بدر احمد وقاص نے زبردست ادبی گفتگو کی اِس سیشن۔کے میزبان۔ڈاکٹر ضیاالحسن تھے ۔
دو روزہ لیٹریری فیسٹول کا اختتامی پنڈال 16 مئی کو سجا جس میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نی شرکت کی .
اپنے خطاب میں وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان بدل رہا ہے ایک اچھی ، مثبت سوچ پروان چڑھ رہی ہے ۔اْن کا موقف تھا کہ ماضی میں بلوچستان نظر انداز رہا ہے ، اب ایسا نہیں ہوگا سرفراز بگٹی نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یوتھ۔سے بہت سی اْمیدیں وابستہ ہیں ۔موجمدہ صوبائی حکومت نے ساری توجہ نوجوانوں پر مرکوز رکھی ہے ۔
ہم اپنے نوجوانوں مایوس نہیں کرینگے ۔
انھوں نے برملا کہا ہمارا حق کسی غیر نے نہیں ہمارے اپنوں نے مارا ہے ، اب ایسا نہیں ہو گا اب پوسٹیں بکیں گی نہیں نوجوانوں کو اْن کا حق ملے گا ۔
کوئٹہ ادبی میلہ تو اپنے اختتام کوپہنچا مگر ہمارے اربابِ اختیار یہ بات باورکراگیا کہ اگر 2 کروڑ روپے بلوحستان کے ادباء ، شعراء اور جواں نسل کی بہتری کیلیے خرچ کئیے جاتے تو نتائج اور سودمند ، موثر او مثبت مرتکب ہو سکتے تھے ۔
شاہد کہ تیرے دل میں اًتر جائے میری بات ۔