اسلامی روایات ، مغرب اور ہم

0 69

ہماری شاندار اسلامی روایات اور تہذیب اس کے باوجود مغرب کی تقلید، موجودہ وقت کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت عالم اسلام مغربی تقلید میں اندھا دھند مصروف ہے، اور وہ اسے ترقی کا زینہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ معاشرے کا بگاڑ اسی کی لڑی ہے حالانکہ قابل غور امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی حیات اور ان کی زندگی کا مقصد سرچشمہ قرآن اتباع رسول ﷺ پر محیط ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے مسلم ممالک اور مغربی افکار و اقتدار کے درمیان تصادم ہے۔۔ آج کا نوجوان اسی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ وہ اسلامی اقدار کو اپنائے یا مغربی افکار کی پذیرائی کرے۔حالانکہ اسلام نے واضح طورپر کہاکہ دین کی پیروی تمام مسلمانوں پر فرض ہے اوردوسرا کوئی نظام قابل قبول نہیں ہے۔مسلم اقوام کی اسلام سے گہری وابستگی اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم ممالک میں کوئی دوسرا نظریہ یا نظام رائج نہیں ہو سکتا۔
اور یہاں پر کسی عالمی طاقت کی حکمرانی کی گنجاش نہیں ہے۔ اس یک بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئے ہیں۔ اور یہاں پر وہی قوانین رائج ہو سکتے ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے۔
عصر حاضر میں فلسطین ایشو کو ہی دیکھ لیں جو ایک برس سے زائد حالت جنگ میں ہے اور یہاں پر فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، اس گھمبیر صورت حال میں بھی عالم اسلام بے بس ہے جو ہمارے لیے عبرت کا مقام ہے۔ یہ راستہ اللہ کے نزدیک سراسر گھاٹے اور تباہی کا ہے۔ دوسری جانب ایران کی خارجہ پالیسی کو دیکھ لیں،تو دیگر عالم اسلام کے لئے ایک مثال ہے۔قرآن مجید میں جا بجا حکم اور ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو قومیں اللہ کے بتائے ہوئے راستوں سے منحرف ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو تباہ و برباد کرکے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔آج بھی ہمارا ضمیر نہ جاگا تو یہ مسلمانوں کے لئے عبرت کا مقام اور اسلامی روایات سے منحرف ہونے کی دلیل ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ آج اسلام ممالک ذہنی خلفشار کا شکار ہوکر دلی سکون جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ ان کی اس کیفیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان ممالک کی عنان حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ جن کی ذہنی کیفیت ، تعلیم و تربیت ، ذاتی و سیاسی تربیت مغرب کے افکارپر مبنی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مغرب زدہ یہ طبقہ ذہنی تصورات، قومی عادات ، ضابطہ اخلاق ، قوانین اور اقدار و روایات میں مغرب طرز فکر کو فروغ دے رہاہے۔ اس طرز فکر کے ذریعے ملک اور معاشرے کو مغربیت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس وقت مغربی تہذیب کا رخ اور نسبت دیگر اقوام کی نسبت عالم اسلام کی طرف زیادہ ہے۔ اسی تہذیب نے عالم اسلام کو ایک نازک اور دشوار پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے جو کہ اسلامی رہنماوں اور مفکرین کے لئے مشکل امتحان ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جیسے جرمنی میں مائنڈ کنٹرولڈ لوگ تیار کیے گئے ایسے ہی لوگ آج میرے ملک میں خود کش دھماکے کر رہے ہیں۔کیا ہم پاکستانی شہری ہیں یا کسی اور دنیا کے شہری بن چکے ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کس طرح ہماری زندگیوں پر اثرانداز ہورہاہے۔ اگر مغربی اقوام نے اسی ریل گاڑی پرسفرکر کے نقصان اٹھایاہے تو ہمیں اسی ٹرین پر بیٹھ کر انجانی منزل کی طرف کیوں گامزن ہیں۔ ہم ابھی بھی
خواب غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک نے واضح کہاکہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، ورنہ تم گمراہ ہو جاو گے۔ہمیں وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہوتا۔
اب دیکھنا یہ کے اس تمام صورت حال کا کون ذمہ دار ہے؟ پھر نئی نوجوان نسل میں ذہنی خلفشار کا شکار ہے، کیونکہ ہمیں منصوبہ بندی کے ذریعے الجھایا گیا ہے ، ہم دنیاوی زندگی کو وہ حیثیت دے بیٹھے ہیں ، ہمارے پاس اپنے آپ کو پہچاننے کا وقت ہی نہیں۔ دنیا کے معاملات اتنی اہمیت دے چکے ہیں کہ ہمارا واپسی کا راستہ مشکل ہوتا چلا جارہاہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچان لیں، اپنے اسلاف کی اقدار کی فکر کریں۔ ہم اپنے آپ کو معاشی ، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے خود کو مضبوط کریں، اور وہ ریل گاڑی استعمال کریں جو ہمیں منزل تک پہنچائے، نہ کہ اس پرجس کی وجہ سے راستوں میں بھٹک جائیں۔
مغربی رنگ میں رنگے تمام اسلامی ممالک اور ہمارے معاشرے میں قوت ایمانی اور خود اعتمادی کا فقدان ہو چکا ہے۔ہم سب کو بے اعتماد ی، ایمان کی کمزوری اور احساس کمتری کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر جیسے عالمی تناعات کو اجاگر کریں۔اور درپیش عالمی چیلنجز کو معاشی ، اجتماعی عقائد و خیالات اور تمام معاملات کو کمال فہم و فراست سے حل کریں۔ کیونکہ قوموں کا قومی تشخص اور تہذیب ہی قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔ مسلم ممالک اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور خیر شر سے مکمل طورپر باخبر رہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ غلامی کا دور پھر شروع ہو چکا ہے، برطانیہ کی غلامی سے نکل کر ہم امریکا کی غلامی میں آ چکے ہیں، ہم مغربی تقلید میں خیرو شر کے فرق کو بھی بھول چکے ہیں۔ مغربی تقلیدہم نے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ انسانیت بھی بھول چکے ہیں۔ ہم نے وائٹ ہاوس کو اپنا قبلہ بنا لیا ہے اور قومی معلومات اور راز بھی ان کے حوالے کر رہے ہیں۔ بدلے میں ہمارے حکمران قرضوں کی شکل اربوں ڈالر لیتے ہیں اور لوٹ مار کی رقم کو بینکوںاور تجوریوں میں بھرتے ہیں۔ عالمی قرضوں کا بوجھ قوم کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے، جو آئے دن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے،ان قرضوں کی سود کی رقم ادا کرنے کے لیے عوام بھاری ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ ہمارے محکموم ہونے اور غلام رہنے کی وجہ ہمارے سامنے ہے۔ آخر بھی یہی کہنا ےہ کہ مزید کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اب بھی اگر ہم نے ہوش مندی سے کام نہ لیا تو یہ غلامی کا طوق ہمیشہ کے لئے ہمارے گلے میں موجود رہے گا، اور ہم پر جبر مسلط کر دیا جائے گا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.