لہو سے سیراب سرزمینِ مستونگ!۔۔۔

0 41

تحریر: غلام اللہ شاہوانی

ارضِ بلوچستان میں شال کوٹ سے متصل ایک ایسا شہر آباد ہے جسے چہاروں اطراف سے فلک بوس اور سرمئی پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے ، پہاڑوں کے قریب ہی سبز چادر اوڑھے درختوں کی قطاریں ، سبزہ زار و مرغزار لہلہاتی فصلیں اور چمن میں کھلتے گلہائے رنگا رنگ یہاں کے حسن کو دو بولا کرتے ہیں، جہاں سال بھر میں چار مختلف موسموں کا نظارہ ہوتا ہے ، کبھی پہاڑ سبز چادر میں ملبوس نظر آتے ہیں تو گاہے بگاہے سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ المختصر ! یہ سرزمین حسن و جمال اور خوبصورتی کا استعارہ ہے ۔ بات صرف خوبصورتی تک محدود نہیں بل کہ یہاں کی زمین اتنی سیراب اور مردم خیز ہے کہ ہر دور اور ہر عہد میں یہاں سے نامور شعراء و ادباء ، علماء و خطباء ، ملک و ملت کی خدمت کرنے والےجنم پاتے رہتے ہیں ۔
لیکن یہاں کی زمین ہمیشہ سے خون کی ندیوں اور آنسوؤں کے فواروں سے سیراب ہوئی ہے ، جہاں کے لوگوں نے ہمیشہ اپنے لہو کی قربانی دے کر لالہ فام گلابوں میں سرخ رنگ بھرے ہیں… اس شہرِ نا پرساں سے میری مراد ” ضلع مستونگ” ہے ۔
سرزمین مستونگ میں آئے روز واقعات و حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں ، روڈ حادثات کی بات کی جائے تو یہاں سے گزرنے والی سڑک کو خونی شاہراہ کا نام اس وجہ سے دیاہے کہ یہاں ہر چڑھتے سورج اور ہر پھیلتی شام کے ساتھ کئی نوخیز نواجوان ، بچے اور بوڑھے جان کی بازی ہار دیتے ہیں ۔
روڈ حادثات ، قبائلی تنازعات ، اور لاپتہ افراد کے نام پر قتل کیے جانے والے سینکڑوں نوجوانوں کی لاشوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر صرف بم دھماکوں کی بات کی جائے تو سینکڑوں خاندان ان دھماکوں سے متاثر ہوئے ہیں ۔
یوں تو ہر روز شہر مستونگ میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ، ہر حادثے میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے لیکن یہاں تین ایسے دل دہلا دینے والے خودکش دھماکے ہوئے ہیں جن میں بے شمار لوگ لقمہ اجل بن گئے۔
پہلا خودکش حملہ 12مئی بروز جمعہ 2017 کو عبدالغفور حیدری کے قافلے پر ہوا جس میں تقریبا 27 افراد شہید ہوئے جن میں زیادہ تر تعداد علمائے کرام اور طلبائے عظام کی تھی، زخمیوں کی تعداد بھی 50 کے قریب تھی۔ اس ہولناک سانحے میں راقم خود بھی عینی شاہدین میں سے تھا حالت اس طرح تھی کہ قیامت صغریٰ کا منظر تھا ہر طرف آہ وفغان، خون میں لتھڑے شہداء کی لاشیں، شہر میں سوگ اور خون آشام فضائیں ، ہواؤں میں خون کی بو پھیلی تھی۔
دوسرا خودکش حملہ 13 جولائی 2018 کو مستونگ کے شہر “درینگڑھ” میں میرسراج احمد رئیسانی پر ہوا ، لوگوں کی بھیڑ اور ازدحام کی حالت میں جب سراج احمد رئیسانی انتخابی جلسے سے خطاب کرنے کے لیے اسٹیج پر آئے اسی دوران خودکش حملہ ہوا اس حملے میں میر سراج احمد رئیسانی سمیت میں تقریبا 149 کے قریب افراد شہید جبکہ100 سے متجاوز زخمی ہوئے ۔ اس دھماکے میں سینکڑوں گھروں میں ماتم اور سوگ کی فضا قائم ہوئی اس سے قبل مستونگ کی تاریخ میں اس سے بڑا حادثہ رونما نہیں ہوا تھا اس حادثے میں ایک گھر کے کئی افراد ایک ساتھ شہید ہوئے جن میں تین بھائی ایک ساتھ راہی ئے فردوس ہوئے ۔
تیسرا المناک خود کش حملہ 2023 میں 12 ربیع الاول کے روز “عید میلاد النبی کے جلوس” پر ہوا جس میں سربراہ تحریک لبیک مولانا سعید احمد حبیبی سمیت تقریباً 65 افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے جن میں نوجوان بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے ۔
روڈ حادثات قبائلی تنازعات مسنگ پرسنز کے نام پر قتل کیے جانے والے افراد کی طرف توجہ و التفات کیے بغیر صرف ان تین بڑے خودکش حملوں کی داستانیں پرالم پڑھ کر فیصلہ کیجیے کہ مستونگ کی سرزمین برسات سے سیراب ہے یا شہداء کے لہو سے ؟ ان حادثات کے اندر کتنے خاندان متاثر ہوئے؟ کتنی ماؤں نے اختر شماری کر کے اشک ریزی کی ؟کتنے بچے شفقت پدری سے محروم ہوئے؟ کتنے باپوں کا سہارا ختم ہوا ؟ کتنے بہن بھائیوں کے ارمان خاک میں مل گئے؟
شہدا اور ان کے لواحقین کے علاوہ عینی شاہدین میں سے کتنے افراد ایسے ہوں گے جنہوں نے قیامت سے قبل قیامت کا منظر دیکھا ؟ اکیسویں صدی میں کربلا کا منظر ان کی ان کی انکھوں کے سامنے پیش ہوا ؟ عینی شاہدین میں سے کتنوں کے دل میں ہمیشہ کے لیے خوف و ہراس نے جگہ پکڑ لی ؟
یوں سمجھ لیجیے کہ یہاں کے باسیوں کو سات رنگوں میں سے صرف خون کا رنگ یاد رہا اور انہیں صرف آہ و فغاں و کی آواز سنائی دی !
ان خودکش حملوں کی وجوہات کیا ہے؟ عوام کے خون کی ندیاں کیوں بہائی جا رہی ہے؟ اور صرف مستونگ کیوں ظلم و جور کی آماج گاہ ہے؟ اگر کسی تنظیم کو کسی خاص شخصیت یا گروہ سے دشمنی ہے تو یہاں کے عوام کے خون کو کیوں ارزاں کیا جا رہا ہے؟
حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قبل از وقت ان حادثات کا سد باب کریں ، حادثات رو نما ہونے کے بعد تحریری اور تقریری مذمت کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا، پرزور مذمت سے کسی کا بھی بچھڑا ہوا پیارا نہیں لوٹ سکتا ، اجڑا ہوا گھر آباد نہیں ہو سکتا !
حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وقت سے پہلے ان حادثات کی روک تھام کے لیے کامیاب منصوبہ بندی کرے سیکورٹی انتظامات کو ہمہ وقت بحال کریں مبادا ایسا نہ ہو یہاں خون پانی سے بھی ارزان تر ہوتا جائے ، آبادیاں قبرستانوں میں تبدیل ہو جائے اور ہم اپنے پیاروں کی موت پر آنسو بہاتے رہیں ! آخر کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟ کب تک اپنے پیاروں کی قبروں پر آنسو بہاتے رہیں گے؟ کب تک یہاں کے لوگ اپنی ناگہانی موت کا منتظر رہیں گے ؟ اگر ابھی اس ظلم و تعدی کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تو کیا اس وقت آواز اٹھائیں گے کہ جس وقت یہاں کی آبادی قبرستانوں میں تبدیل ہوئی ہوگی؟ اگر آج ہم لب بستہ رہیں گے تو ایک دن ہم میں سے بھی بہت سے افراد ان خونچکاں حادثوں کا شکار ہوں گے ۔ کب تک سرزمین مستونگ خون سے سیراب ہوگی ؟ آخر کب تک ؟ ۔۔۔۔کے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.