عادل بازئی کو ڈی سیٹ کیے جانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری
سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کیے جانے کا الیکشن کمیشن فیصلہ کالعدم قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ تحریر کیا ہے ، تحریری فیصلہ 18 صفحات پر مشتمل ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی ہدایات کے باوجود الیکشن کمیشن ایسا رویہ اپناتا ہے جو اس کے آئینی فرائض سے مطابقت نہیں رکھتا، الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ اسے دوسرے آئینی اداروں اور ووٹ کے بنیادی حق کو نظرانداز کرنے کا اختیار حاصل ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات جمہوریت کی زندگی ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی عمل کی دیانتداری کا ضامن ہے، الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابی عمل کے بغیر جمہوریت کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے، الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی مداخلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن کو جمہوریت کا غیرجانبدار محافظ رہنا چاہیے۔تحریری فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کا حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر ہو تو یہ سیاسی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا، انتخابی عمل کی حفاظت کا مرکز عوام کے ووٹ کا حق ہے، حق ووٹ کے استعمال سے جمہوری نظام میں طاقت اور قانونی حیثیت عوام کی مرضی سے حاصل ہوتی ہعادل بازئی کیس میں جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا بنیادی کردارآزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے، شہری الیکشن لڑنے، مرضی کے امیدوار کوووٹ دینے کا حق ہے۔اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کودیگر آئینی اداروں سے بالاست تصور نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن آئینی مینڈیٹ کے مطابق، ایک آزاد ادارہ ہے جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے، الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابات کی سالمیت کو برقرار رکھنے کیلئے ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کے اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یقینی بنانا ہے عوام کی مرضی منتخب نمائندوں کی حکومت کی صورت میں نظر آئے، الیکشن کمیشن کا مثبت کردار قانون کی حکمرانی کا تحفظ کرنا ہے اور لوگوں کو سیاسی جوڑ توڑ سے بچانا ہے۔