انتہائی حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو کیسے دیا گیا ؟ایف بی آر والے اپنا سسٹم کیوں نہیں بناتے ،سپریم کورٹ برہم

0 186

 اسلام آباد (این این آئی)سپریم کور ٹ آف پاکستان نے ایف بی آر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ انتہائی حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو کیسے دیا گیا ؟ایف بی آر والے اپنا سسٹم کیوں نہیں بناتے ،پرال کمپنی ہائی کورٹ کے فیصلے میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے، بتایا جائے پرال کو کنٹریکٹ دیتے وقت پیپرا قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں ایف بی آر کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کے سربراہی میں بینچ نے کی ۔چیف جسٹس نے کہاکہ انتہائی حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو کیسے دیدیا گیا؟ ایف بی آر کا ریکارڈ حساس ترین ہوتا ہے، کیا ایف بی آر ٹیکس بھی جمع کرنے نجی کمپنی کو ہی دیتا ہے؟ ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پرال نامی کمپنی نجی نہیں پبلک لمیٹیڈ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایف بی آر افسران کے پورے پورے خاندان اس کمپنی میں ملازم ہیں،پرال کمپنی کو ختم کرکے نیب کو تحقیقات کا کہہ دیتے ہیں، ایف بی آر اپنا کام خود کرے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ کوئی سرکاری افسر پرال کمپنی سے تنخواہ نہیں لے رہا، کمپنی کا کام صرف سافٹ ویئر بنانا ہے ٹیکس اعدادوشمار اکٹھے کرنا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایف بی آر والے اپنا آئی ٹی سسٹم کیوں نہیں بناتے۔ قائمقام چیئر پرسن ایف بی آر نوشین امجد نے کہاکہ سول سروس میں تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے تکنیکی لوگ نہیں آتے،میری تنخواہ پرال کمپنی کے جی ایم سے بھی کم ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایف بی آر کو پرال کے قیام سے کیا فائدہ ہوا؟ کیا ایف بی آر کی ٹیکس ریکوری میں اضافہ ہوا؟ ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایف بی آر افسران آن لائن پاسورڈز کیساتھ جو کھیل کھیلتے ہیں معلوم ہے، بلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ جاری کیے جاتے ہیں، غیرقانونی ٹیکس ری فنڈ کے کئی مقدمات عدالت میں ہیں، آن لائن سسٹم سے بھی دو نمبری ہی ہونی تو اس کا کیا فائدہ؟ ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ کمپنیاں بنانے کا مقصد صرف زیادہ تنخواہیں دینا ہے، حکومت جو کام کمپنیوں سے کرواتی ہے وہ خود کیوں نہیں کرتی؟ پنجاب میں بھی 56 کمپنیاں بنائی گئی ہیں؟ ۔ قائمقام چیئر پرسن ایف بی آر نے کہاکہ بھارت میں بھی ریونیو محکمہ نے ایسی کمپنی بنا رکھی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ من پسند افراد کو کمپنی میں نوازنے پر تشویش ہے، کمپنیوں میں تقرریوں کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہیے،پرال کمپنی کا منافع کس کو جاتا ہے؟ ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پرال کمپنی کا منافع حکومت کو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پرال ٹھیک کام کر رہا ہوگا لیکن روزانہ کتنے کنٹینر بغیر ڈیوٹی ادا کیے نکل جاتے ہیں؟ ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کنٹینرز فراڈ میں ملوث افراد کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟ یہ بھی بتائیں پرال کے کن افراد کو ایف بی آر ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے؟ ۔ وکیل نے کہاکہ ایف بی آر پرال کو سالانہ 68 کروڑ ادا کر رہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں پرال پر کئی سوالات اٹھائے گئے، ایف بی آر کے مطابق پرال کمپنی حکومت کی ملکیت ہے، اٹارنی جنرل کے مطابق پرال کمپنی کو ایف بی آر ڈیٹا تک رسائی نہیں،پرال کمپنی ہائی کورٹ کے فیصلے میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے، بتایا جائے پرال کو کنٹریکٹ دیتے وقت پیپرا قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟ ۔بعدازاں سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی گئی

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.