ایمان کامل کی جھلکیاں
انسانی معیار ہی انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے معیار کے لئے ظاہر ہے انسان کو محنت سے کام لینا پڑتا ہے ہمیں اپنا کوئی مینیو بنانا ہو گا کہ آج اور اس وقت ہم نے یہ اور یہ کام کرنا ہے بیشک کم ہو مگر ہو روز اسی سے ہی بہتری نظر آنے لگے گی لہذا معیار زندگی بہتر بنائیں لوگوں کے دلوں پہ راج کو اپنا مقدر بنائیں سلف و صالحین نے ایسی عمدہ اور نایاپ امثلہ قائم کیں کہ انسانی عقل ورطہ حیرت میں آ جاتی ہے اگر ہم آج ان کو پڑھ اور سن لیں تو ایمان میں ترو تازگی اور حقانیت آ جاتی ہے کہ یہی بزرگ ہستیاں ہیں جن کی بدولت آج تک دین اسلام قائم ہے ما و شما بس گنتی کے مسلمان ہیں ایمان افروز واقعہ گوش گزار ہے
ابودجانہ رضى اللہ عنہ كى ہر روز كوشش ہوتى كہ وہ نماز فجر رسول اللہﷺ كے پيچھے ادا كريں، ليكن نماز كے فورى بعد يا نماز كے ختم ہونے سے پہلے ہى مسجد سے نكل جاتے، رسول اللہﷺ كى نظريں ابودجانہ كا پيچھا كرتيں ، جب ابودجانہ كا يہى معمول رہا تو ايك دن رسول اللہﷺ نے ابودجانہ كو روك كر پوچھا :
’’ابودجانہ! كيا تمہيں اللہ سے كوئى حاجت نہيں ہے؟
ابودجانہ گويا ہوئے: كيوں نہيں اے اللہ كے رسول، ميں تو لمحہ بھر بھى اللہ سے مستغنى نہيں ہوسكتا۔۔۔
رسول اللہﷺ فرمانے لگے، تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے كا انتظار كيوں نہيں كرتے، اور اللہ سے اپنى حاجات كے ليے دعا كيوں نہيں كرتے۔۔۔
ابودجانہ كہنے لگے اے اللہ كے رسول! در اصل اس كا سبب يہ ہے كہ ميرے پڑوس میں ايك يہودى رہتا ہے، جس كے كھجور كے درخت كى شاخيں ميرے گھر كے صحن ميں لٹكتى ہيں، اور جب رات كو ہوا چلتى ہے تو اس كى كھجوريں ہمارے گھر ميں گرتى ہيں، ميں مسجد سے اس ليے جلدى نكلتا ہوں تاكہ ان گرى ہوئى كھجوروں كو اپنے خالى پيٹ بچوں كے جاگنے سے پہلے پہلے چُن كر اس يہودى كو لوٹا دوں، مبادا وہ بچے بھوك كى شدت كى وجہ سے ان كھجوروں كو كھا نہ ليں۔۔۔
پھر ابودجانہ قسم اٹھا كر كہنے لگے اے اللہ كے رسول! ايك دن ميں نے اپنے بيٹے كو ديكھا جو اس گرى ہوئى كجھور كو چبا رہا تھا، اس سے پہلے كہ وہ اسے نگل پاتا ميں نے اپنى انگلى اس كے حلق ميں ڈال كر كھجور باہر نكال دى۔ ۔۔
اللہ كے رسول! جب ميرا بيٹا رونے لگا تو ميں نے كہا اے ميرے بچے مجھے حياء آتى ہے كہ كل قيامت كے دن ميں اللہ كے سامنے بطور چور كھڑا ہوں۔۔۔
سيدنا ابوبكر رضى اللہ عنہ پاس كھڑے يہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ايمانى اور اخوت اسلامى نے جوش مارا تو سيدھے اس يہودى كے پاس گئے اور اس سے كھجور كا پورا درخت خريد كر ابودجانہ اور اس كے بچوں كو ہديہ كر ديا۔۔۔
پھر كيوں نہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ ان مقدس ہستيوں كے بارے يہ سند جارى كرے:
﴿رَّضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾
“اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے-”
چند دنوں بعد جب يہودى كو اس سارے ماجرے كا پتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ كو جمع كيا، اور رسول اللہﷺ كے پاس جا كر مسلمان ہونے كا اعلان كر ديا۔۔۔ الحمدللہ على نعمة الإسلام
محترم سامعین
ابودجانہ تو اس بات سے ڈر گيا تھا كہ اس كى اولاد ايك يہودى كے درخت سے كھجور كھانے سے كہيں چور نہ بن جائے۔ اس قدر تقوی اور خوف خدا وندی اللہ اکبر کبیرا
ہمیں اپنا معیار زندگی دیکھنا ہو گا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں کیا اور کیوں کر رہے ہیں کبھی اپنا محاسبہ کیا ؟کبھی ہمیں اپنے کیے پہ شرمندگی محسوس ہوئی ؟ کبھی اپنے ہمسائے کا حق کھاتے ہوئے ایمانی جذبہ ابھرا ؟ کبھی کسی ناچار و محتاج کا مال ہڑپ کر کے دل میں خواہش توبہ ہوئی ؟ کبھی رشوت و سود اور مال حرام کما کر رب کے خوف سے لرز اٹھے ؟ یقینا جواب نہیں میں ہے آج ہمارا كيا حال ہے كہ آج ہم اپنے مسلمان بھائيوں كا مال ہر ناجائز طريقے سے كھائے جا رہے ہيں ڈنکے کی چوٹ پہ مال حرام اپنی نسل تک پہنچا رہے ہیں ستم ظریفی یہ ہے ہمارے كان میں جوں تك نہيں رينگتى بس ہر سو یہی نعرہ گونج رہا ہے لوگ اور زمانہ ہی ایسا ہے حرام کے بغیر کام نہیں چلتا ارے خدا کے بندے یہ دوغلا عذر رب کے ہاں مقبول نہیں بلکہ سبب گرفت خداوندی ہے زمانے کو اپنے مطابق ڈھا لیں زمانے کو اپنی کمزوری کا بے جا عذر نہ بنائیں لوگوں سے کہہ دیں زمانے سے ہم نہیں