شیشے کی مکان میں ہاتھی
قارئین کرام! اگر آپ کبھی کسی شیشے کے مکان کا تصور کریں تو یقیناً آپ کو اس کی نرمی، نزاکت اور کمزوری کا اندازہ ہو گا۔ اور اگر آپ اس نازک مکان کے اندر ایک ہاتھی کو چلتا دیکھیں تو آپ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ یہ ہاتھی زیادہ دیر اس شیش محل میں قید نہیں رہ سکتا۔ وہ یا تو خود زخمی ہوگا، یا پورے مکان کو ریزہ ریزہ کر دے گا۔ یہی مثال آج کے پاکستان پر صادق آتی ہے۔ ہمارا آئین، ہمارا قانون، ہماری اسلامی روایات، پشتونوں کی جرگہ روایات، قبائلی اصول، ملکی عدلیہ، ریاستی نظم، پارلیمانی حدود—سب ایک شیشے کی مانند ہیں۔ خوبصورت، نازک، معتبر، مگر انتہائی کمزور۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان شیشے کی دیواروں کے اندر اب ایک ہاتھی داخل ہو چکا ہے۔ وہ ہاتھی جو قانون کا رکھوالا بن کر آیا تھا، اب اس کا توڑنے والا بن گیا ہے۔ وہ ہاتھی جو آئین کا محافظ کہلاتا تھا، اب اس کے ہر صفحے کو روند رہا ہے۔پاکستان میں قانون ایک آئینی کتاب میں ضرور محفوظ ہے، مگر عمل میں ناپید۔ ہمارے مذہبی، اخلاقی، روایتی اور سماجی اصول ایک خوبصورت فریم میں دیواروں پر آویزاں ضرور ہیں، مگر ان پر چلنے والے کہیں نہیں۔ یہاں عدالتیں موجود ہیں، مگر انصاف ناپید۔ یہاں قانون کے رکھوالے وردی پہنے نظر آتے ہیں، مگر انصاف کی لاش انہی کی قدموں میں پڑی ہوتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قانون ہاتھی کے نیچے آ کر چکنا چور ہوتا ہے۔اگر پولیس کا اہلکار خود مجرم بن جائے، اگر جج ضمیر بیچ دے، اگر وکیل انصاف کو تجارت بنا دے، اگر جرگے طاقتور کے در سے فیصلہ لے تو سمجھو کہ ہاتھی نے شیشے کا آنگن توڑ دیا۔ اور اگر حکمران پارلیمنٹ کو محض دکھاوے کا ادارہ سمجھے، اگر ادارے آئین کو ذاتی مفاد کا ہتھیار بنائیں، اگر طاقتور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھے تو یقین رکھو، یہ سب ہاتھی کے وہ پاؤں ہیں جو قانون کی بنیادوں کو روند رہے ہیں۔جب ایک عام شہری کو انصاف کی تلاش میں عمر بیت جائے اور ایک طاقتور چند گھنٹوں میں ضمانت لے، جب بے گناہ جیلوں میں سڑتے ہوں اور مجرم پروٹوکول میں پھرے، جب مظلوموں کی فریاد ٹی وی اسکرینوں پر سنائی دے اور ایوانوں میں قہقہے گونجیں تو یقیناً یہ وہی منظر ہے جہاں شیشے کی دیواریں کرچی کرچی ہو رہی ہوتی ہیں۔یہ ہاتھی کبھی کرپٹ سیاستدان کی صورت میں آتا ہے، کبھی وردی پہنے جرنیل کی شکل میں، کبھی تاجروں کے کارٹیل میں، کبھی مذہب کے لبادے میں، اور کبھی عدلیہ کے چہرے میں۔ یہ سب اپنی طاقت سے آگاہ ہیں اور قانون کی نزاکت سے بھی۔ انہیں پتا ہے کہ یہ شیشہ ہے، نازک ہے، اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے قدم بہت بھاری ہیں۔ مگر ان کے ضمیر اتنے بیدار نہیں کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں۔ کیونکہ جہاں طاقت کا نشہ ہو، وہاں قانون صرف دکھاوا رہ جاتا ہے۔ہمارے ہاں اسلامی قانون صرف خطبوں تک محدود ہے، عمل میں ناپید۔ اگر اسلام کا نام لیں تو رواداری، عدل، حق گوئی، مشورہ، اور تقویٰ کی بات ہو، مگر یہاں اسلام کے نام پر فتوے بکتے ہیں، اور مسندِ عدل پر وہ بیٹھتا ہے جس کا دامن خود داغ دار ہوتا ہے۔پشتون روایات، جرگے، جرئت، غیرت، مشورہ، احترام، عزت، صداقت—یہ سب وہ سنہری اقدار تھیں جن پر فخر کیا جاتا تھا۔ مگر آج وہی جرگہ اگر پیسوں پر جھک جائے، وہی مشر اگر دباؤ میں فیصلہ کرے، وہی قوم که خپل کشر ته حق ور نه کړي، نو بیا خو دا ټول ارزښتونه هاتۀ لاندي شوہ دی.آج قانون کو اس ہاتھی سے خطرہ ہے جو اپنی طاقت کے نشے میں ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ جب شیشے کی دیواریں ٹوٹتی ہیں تو اس کے ذرات آنکھوں میں جا لگتے ہیں۔ اور جب قومیں قانون کو روندنے لگیں، تو وہ اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔یہ وقت ہے کہ ہم شیشے کے اس مکان کو بچائیں۔ اس کے در و دیوار کو مضبوط کریں، تاکہ کوئی ہاتھی دوبارہ اس میں گھسنے کی جرأت نہ کرے۔ قانون کو مقدس بنائیں، صرف کتابوں میں نہیں، عمل میں بھی۔ وردی ہو یا شیروانی، جب تک قانون سب پر برابر نہیں ہوگا، انصاف صرف کہانی ہوگا۔اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک باوقار، بااصول، اور باعزت ریاست بنے، تو ہمیں شیشے کی اس عمارت میں ہاتھیوں کے داخلے پر پابندی لگانی ہوگی۔ اور اس پابندی کا پہلا قدم ہوگا: قانون پر سب کا یقین، سب کی پابندی، اور سب کے لیے احتساب۔ وگرنہ یاد رکھیں، اگر ہم نے قانون کو نہ بچایا تو قانون ہمیں نہیں بچائے گا۔