بلوچستان میں خطاطی نمائش

0 254

تحریر عبدالغنی شہزاد

کیلگرافرز ایسوسی ایشن آف بلوچستان کی جانب سے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب سہ روزہ خطاطی نمائش 23اکتوبر بروز اتوار کو ادارہ ثقافت بلوچستان جناح روڈ میں منعقد ہورہی ہے جس میں بلوچستان بھر کے نامور خطاط اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیدہ زیب اور دلکش فن پارے مقابلے میں پیش کریں گے، بدقسمتی سے یہ فن اب پاکستان میں عدم توجہی کا شکار ہوتا جارہا ہے، بلوچستان میں کیلگرافرز ایسوسی ایشن آف بلوچستان کے صدر حافظ القلم محمد صادق جنرل سیکریٹری محمد رفیق کی شبانہ روز محنت اور لگن سے اس نمائش کا انعقاد ممکن ہوسکا ہے، اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں اور ضروری ہے کہ ہماری ثقافت کے اس اہم فن کو سرکاری سطح پر پزیرائی ملنی چاہئیے کیوں کہ اس وقت دنیا بھر کے اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب ،عراق ، ترکی، ایران میں سرکاری سرپرستی میں یہ فن زندہ وجاوید ہے جبکہ ہمارے ہاں اپنی مدد آپ کے تحت چند افراد اپنی ناتواں کوششوں سے اسے زندہ رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر آزاد ہوا ہے،اس عظیم اسلامی فن کو بہر صورت اہمیت دینی چاہیئے اب اسلامی خطاطی ہمارے حقیقی ثقافتی ورثہ کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ایک جمالیاتی فن کے حوالہ سے درجہ انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ تمدنی ادوار کے شروع سے ہی عربی کے جو حروفِ ابجد تھے وہ خطاطی کے لحاظ سے اسلامی معاشروں میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ مذہبی شاعری اور لفظوں کی تصویر سازی میں مسلمان تخلیق کاروں نے اپنی جمالیات کو بروئے کار لا کر بڑا جلوہ آرا تخلیقی کام کیا
ہے،اس کی تاریخ ہے کہ دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پھر خلیفة المسلمین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ، حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ کے ادوار میں قرآن پاک کی تحریر کو فروغ حاصل ہوا۔ قرآنی الفاظ کو خوبصورت سے خوبصورت کر کے لکھنے پر زور دیا گیا مذکورہ خلفاءنے بچوں اور بڑوں میں خطاطی کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا سکہ جس پر خطاطی سے الفاظ کندہ تھے وہ بھی حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے دور میں ڈھالا گیا جس پر 40 ہجری درج تھا۔ اُمیہ خلیفہ عبدالمالک نے بھی مزید ترقی دیتے ہوئے خطاطی کو فروغ دیا۔ ابن الندیم کے مطابق پہلا عربی متن جو مکہ والوں کی طرف سے لکھا جاتا تھا طرزِ تحریر کے لحاظ سے خطِ نبطی کہلاتا تھا مگر عرفِ عام میں مکی خط اور مدینہ پاک میں لکھی جانے والی تحریر کو مدنی اور تیسرا بصرہ میں لکھا جانے والا خط اور چوتھا عربی طرزِ تحریر کوفی تھا۔ شروع میں کوفی خط بغیر نقطوں کے اور بغیر اعراب کے تھا پھر جس طرح ارتقائی مراحل طے ہوئے تو اسلامی خطاطی کو مزید حسنِ تحریر کے ساتھ لکھا جانے لگا۔ اس کے بعد غیر عرب لوگوں کے پڑھنے ، سمجھنے اور بولنے کی غرض سے نقطے اور اعراب لگائے گئے۔ اُمیہ دور میں ہی ایک اہم شخصیت کتبہ نے خطاطی کے حروف کو حسین و جمیل بنانے کے لئے ”جلی و تومان“ کو رواج دیا پھر عباسیوں کے دور 750سے 1258ءتک کئی خطاط پیدا ہوئے ان میں قابلِ ذکر ابن مقلہ بیضاوی ہیں جنہوں نے نہ صرف خطِ نسخ کو نئی طرح دی بلکہ کئی اور خط بھی ایجاد کئے جن میں توقیع، ثلث، محقق، ریحان، اور خطِ رقعہ بھی شامل ہیں ان کے مکمل قواعد و ضوابط مرتب کئے کہ ہر طرزِ تحریر کو کن اُصولوں کے مطابق لکھا جائے۔اس کے بعد یعقوب مستعصمی نے 1298ءمیں خطِ تعلیق ایجاد کیا جو کہ پہلے سے موجود خط رقعہ اور توقیع کے ملاپ سے معرضِ وجود میں آیا۔ پھر خطِ کوفی کے بھی کئی نمونے یا طرز ہائے تحریر وضع کئے گئے۔ خطِ کوفی مغربی کا انداز الگ اختیار کیا گیا۔ اس کے بعد سولھویں صدی عیسوی میں میر علی تبریزی نے تیموری دور میں خطِ نستعلیق ایجاد کیا جو خطِ نسخ اور تعلیق کے امتزاج سے لکھا گیا اس ایجاد پر انہیں سرکار کی طرف سے ”ماڈل آف کیلی گرافی“ کا بڑا اعزاز دیا گیا۔712عیسوی میں محمد بن قاسم جب برصغیر آیا تو عربی زبان و ادب اور عربی خطاطی کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ لوگوں میں آہستہ آہستہ فنی شعور فہمی کا ادراک ہوا خطاطی کو بڑی پذیرائی ملی اب بھی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برِ صغیر میں یہ فن ثقافتی شناخت کے حوالہ سے ایک اہم فنی و ثقافتی درجہ اختیار کر گیا ہے۔ ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے مدارس جو خطاطی سیکھانے کے مراکز ہوتے تھے وہ بھی اس عظیم فن سے محروم ہوگئے اور سکولوں میں پہلے ہی سے تختی اور خوشخطی کا خاتمہ ہوا تھا ۔ لہذا 23اکتوبر کو ہونے والی خطاطی کی نمائش فن خطاطی کے فروغ کے سلسلے معاون ثابت ہوگی ۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.