خوراک یا۔ زہر
وطن عزیز پاکستان انتھک جدجہد بے پناہ قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا۔پاکستان حاصل کرنے کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا حصول تھا ایسا اسلامی ریاست جس میں قرآن وسنت کی حکمرانی ہو۔لوگوں کو سستا اور فوری انصاف میسر ہو جہاں حاکم خود کو خادم سمجھتا ہوجہاں سب کے حقوق برابر ہوں جہاں چور کے ہاتھ کاٹ دئے جاتے ہوں جہاں پر ملاوٹ جرم عظیم سمجھا جاتا ہو جہاں پر دونمبری دورغ گوئی کا تصور محال ہو ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود جو خواب دیکھا گیا تھا اس کی تعبیر کا انتظار کرتے کرتے 75سال ہوگئے اس کی تعبیر نہیں پاسکے ان قربانیوں کے ثمر سے اب تک محروم ہیں۔البتہ اس کے باوجود ہم نے کئی عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لئے یا کرنے والے ہیں وہ چاہئے عدل وانصاف ہو یا قانون کی حکمرانی ہو یا حق حکمرانی گوڈگورنس کرپشن ایمانداری میں کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔تمام تر بدعنوانی کی جڑمیں طاقت وار طبقے کو ہی سمجھتا ہوں یہی وجہ ہے کسی بھی پاکستانی سے سوال کرو کہ ملک کیسے چل رہا ہے توان کاجواب کچھ اس طرح سے ہوتا پاکستان کو اللہ ہی چلا رہا ہے صدر وزیراعظم سے لے کر چپراسی تک چور ہیں۔ یہاں ایماندار وہ ہے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ان باتوں میں کافی حد تک صداقت ہے۔اسی طرح کسی بڑے عمر کے بزرگ سے پوچھتے ہیں جنھوں نے برصغیر میں انگریز کا دور دیکھا اس دور اور اس دور میں کیا فرق ہے تو یہی جواب سننے کو ملتا ہے غریبوں کیلئے وہ دور بہتر تھا گو کہ اس وقت ہم غلام تھے اور آج ہم آزاد ہیں۔اس کے باوجود،لوگ اس دور کو بہتر سمجھتے تھے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ان کا ذکر پھر کبھی۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا اسلامی ملک ہے لیکن اس اسلامی ملک میں کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر زندگی بچانے والے ادویات تک فصلوں اور باغات میں گھاس اورجڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کرنے کیلئے اسپرے کرنے والا زہر بھی خالص نہیں رہا ہے غرض پاکستان میں کوئی چیز آپ کو ایک نمبر نہیں ملتا ہے۔ہر جگہ دونمبری ہر چیز دونمبربن رہا۔ لیکن اس دونمبری کا شکار ہمیشہ بے چارے غریب ہی ہوتے ہیں کیونکہ پیسے والے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی برانڈ کی ہر چیز استعمال کرتے آتے ہیں یہی وجہ ہے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ہر چیز کی قیمتیں آسمان تک ہیں۔اور غریب بے چارے گلی محلوں میں بننے والی خوراک کے نام پر زہر کھاتے کھاتے موت کو گلے لگاتے ہیں کیونکہ ان کو دوائی کے نام پر گھی کے نام پر نمک مرچ چائے کے نام پر بسکٹ چاکلیٹ چیس کے نام پردودھ کولڈرنک کے نام پر زہرہی کھیلا جارہا ہے یہی وجہ ہے پاکستان میں لوگوں کی اوسط عمریں دن بدن کم ہونے کے ساتھ بچے وقت سے پہلے بلوغت کو پہنتے ہیں۔دیکھا جائے تو دنیا کے کئی ممالک میں اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کی سزا ئے موت ہے،جبکہ کئی ممالک میں سنگین سزایں دی جاتی ہیں۔لیکن اسلامی مملکت میں یہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے آزاد ہیں کسی کوجرت نہیں جو ان قاتلوں کی جانب آنکھ اٹھاکر دیکھ سکے کیونکہ اس دھندے میں ملوث تمام تر کا تعلق با اثر طبقے سے ہی ہوتا ہے۔گوکہ ACQSPپاکستان ستینڈرڈ اینڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے علاوہ کئی ادارے موجود ہیں اس کے باوجود۔ان موت کے سوداگروں کو کچھ نہیں ہوتا ہے۔اس وقت ملک میں عجیب صورت حال ہے ایک طرف مہنگائی نے تباہی مچائی ہے تو دوسری جانب ملاوٹ اور ناقص خوراک کا شکار ہوکر غریب سسک رہے ہیں۔ہمارے یہاں بیماری کی صورت میں غریب سرکاری ہسپتال کا رخ کرتا ہے یا پھر کسی اتائی کے ہتھ چڑھ جاتا ہے نتیجہ موت کی صورت میں نکل آتا ہے۔دیکھا جائے تو گورنمنٹ صحت کے سالانہ اربوں روپے کی بجٹ مختص کرتی ہے میرے خیال میں سال 2022میں صحت کیلئے 24ارب روپے رکھے ہیں۔ناقص خوراک کی بدولت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے یعنی پچاسی سے نوے فیصد ملک کی آبادی غٰیر معیاری ملاوٹ شدہ خوراک کے استعمال سے بیمار ہوکر سرکاری ہسپتالوں میں پہنتے ہیں۔اس سے ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جب میرے شہر اوستہ محمد میں شاید 1996میں سول ہسپتال میں پہلی بار ہپاٹیٹس بی کے ٹیسٹ کرنے کی سہولت اس وقت ڈی سی نے افتتاح کیا تھا اس دوران دو سو افراد سے نمونے لیے گئے تھے جن میں ستر افراد میں یہ جگر کی بیماری کے وائرس پائے گئے تھے یعنی ہر تیسراشخص اس مہلک بیماری میں مبتلا پایا گیا ہے۔ اس وقت صورت حال کئی گنا خراب ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ پی ایس کیوسی اے سمیت تمام اداروں کو فوری طور پر فحال کرکے اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کرنے دونمبر ادویات بنانے والوں کے خلاف سخت کاروئی کی جائے صحت کے شعبے کیلئے رکھی جانے والی رقم جتنا نہیں تو چند ارب روپے اس مد میں بھی رکھیں نیز ان کو سخت سزایں دینے کیلئے قانون سزا بھی کئی جائے۔میں سمجھتا ہوں بائیس کروڑنہیں تو بیس کروڑ لوگ مختلف جان لیو بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور ہمارے ہسپتالوں پر بھی بوجھ کم ہوسکتا ہے