لبیک

0 122

مبصر عبداللہ حسین
عرصہ قبل سنا تھا کہ ممتاز مفتی ایک بے باک مصنف گزرا ہے جن کی کتابوں میں عجیب انوکھا پن، دل چسپ باتیں اور نرالا افسانوی انداز بیاں ہے ۔
موصوف پر مولویوں کی جانب سے فتوے بھی لگے ، شدید تنقید کا نشانہ بھی بنے۔ اس سوچ و بچار میں پڑ گیا کہ فتوے آخر کیوں؟ تنقید بھلا کیوں؟
بس ان ہی باتوں نے کتاب پڑھنے پر مجبور کیا۔
مصنف کبھی اپنے مزاحیہ اسلوب سے ہنساتا ہے ,تو کبھی اپنے زور قلم سے غصہ دلاتا ہے ، کبھی کالا کوٹھا ، کالے کوٹھے والے کی محبت قرطاس کرکے سادہ لوح مسلم کو متنفر کرتا ہے۔ بہر کیف سحر آفرین افسانوی اسلوب قاری کے دل میں گھر کر جاتا ہے ۔
ممتاز مفتی دنیائے ادب میں نایاب ادیب کے طور پر مانے اور پہچانے جاتے ہیں ۔آج بھی ان کے مداحوں کاایک وسیع حلقہ ہے وہ اپنی ذات میں انجمن اور گلستان تھے ۔
ممتاز مفتی کو پڑھ کر طبیعت میں عجیب بے باکی آجاتی ہے زبان پر سچائی کھینچی چلی آتی ہے
اگر ممتاز مفتی کے ابدال بیلا کے احساسات، جذبات اور خیالات مستعار لئے جائیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے ممتاز مفتی کے چاہنے والے انہیں اوڑھتے ہیں۔ممتاز مفتی معاشرتی روایات سے باغی تھے۔ اپنے غصے اور بغاوت کو انہوں نے تعمیری طور پر استعمال کیا اور اپنے جذبات کو الفاظ کا لباس پہنا کر معاشرے کے سامنے آئینے کے طور پر پیش کیا۔ ممتاز مفتی نے افسانے میں قلمی نام ممتاز حسین کے نام سے لکھنا شروع کیا مگر ان کے دوستوں نے بھانپ لیا کہ ممتاز مفتی ہی ممتاز حسین ہیں ۔ممتاز مفتی ۱۱، ستمبر ۱۹۰۵ کو ہندوستانی پنجاب کے علاقے بٹالہ ضلع گرداسپور میں پیدا ہوئے امرتسر ، میانوالی،اور ڈیرہ غازی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر ۱۹۲۹ میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے اور۱۹۳۳ میں سنٹرل کالج لاہور سے ایس اے وی کا امتحان پاس کیا۔ آل انڈیا ریڈیو اور ممبئی فلم انڈسٹری میں ملازم رہے تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے، ممتاز مفتی ابتداء میں تقسیم ہند کے انتہائی مخالف تھے لیکن بعد میں وہ انتہائی محب وطن پاکستانی اور اسلام پسند کے طور پر جانے گئے ۔عمر کے آخری برسوں میں ممتاز مفتی سفر حج پر گئے اور واپسی پر’لبیک‘ کے نام سے سفر حج کی رودار لکھی جو بے پناہ مقبول ہوئی اور ان کی باقی کہانیوں کی طرح دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی ممتاز مفتی کی فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ۱۹۸۶ میں ستارۂ امتیاز کے اعزاز سے نوازا جبکہ ۱۹۸۹ میں انہیں منشی پریم چند ایوارڈ ملا ممتاز مفتی کا انتقال ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۵ کو اسلام آباد میں ہوا تاہم آج بھی وہ اپنی کتابوں کی شکل میں قارئین کے دلوں میں زندہ ہیں۔
کتاب ’’لبیک‘‘ کے نام کی نسبت سے، حج کے مبارک دن، مفتی جی کا سفرِ حج پڑھنے کا موقع ملا۔ جب کتاب پڑھنے بیٹھا تو اس میں موجود خوب صورت الفاظ پر مشتمل تحریر نے اپنے سحر میں ایسا جکڑا کہ کتاب ختم ہونے کا اندازہ ہی نہ ہو سکا.
اس رودادِ سفر میں مفتی جی قاری کو کئی باتیں سمجھا گئے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے بلاوا نہ آئے، اس وقت کوئی بھی اپنی بھرپور کوشش کے باوجود خانہ خدا (خانہ کعبہ) اور درِ رسولﷺ کی زیارت نہیں کرسکتا۔ اس پر وہ اپنے خوابوں میں حج کی بشارت اور قدرت اللّٰہ شہاب کی طرف سے کی گئی مسلسل جدو جہد کے باوجود کئی مرتبہ حج کا پروگرام بنتے بنتے کینسل ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔
قدرت اللّٰہ شہاب مفتی جی کے ساتھ اس سفر میں ایک روحانی پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں جو قدم قدم پر مفتی جی کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے معصومانہ سوالات کے بڑے مختصر اور جامع جواب دیتے ہیں جو پڑھنے والے کے لیے بھی سنہرے اقوال کا درجہ رکھتے ہیں۔ مفتی جی کے ایک سوال پر قدرت اللّٰہ شہاب جواب دیتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں معبود اور عبد کا تعلق ہوتا ہے جب کہ مدینہ منورہ میں رسولﷺ اور اُمتی کا تعلق ہوتا ہے، ان کے علاوہ انسان کا کسی دوسرے سے تعلق اس سر زمین پر نہیں ہوتا۔
ممتاز نے نہایت سادے انداز میں گویا اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ اور جو کچھ اس نے وہاں محسوس کیا، وہ سب جوں کا توں بیان کر دیا۔۔۔ اس میں اس نے کوئی تصنع یا بناوٹ سے کام نہیں لیا۔۔۔ اس نے بڑی گہرائی سے اللہ کے گھر جا کے ایک ایک چیز کو دیکھا تغیر و تفکر کیا ، محسوس کیا اور ان احساسات کو کتابی صورت میں بیان کر دیا۔۔۔
مفتی کی باتیں ، عرفات کی کہانیاں۔۔۔ طواف کے قصے۔۔۔جمرات کا منظر۔۔۔مکہ کی گلیاں۔۔۔مدینے کی رونقیں۔۔۔ کچھ بھی بناوٹی نہیں …کالا کوٹھا، کالے کوٹھے والے کا عاشق!
کالے کوٹھے کی محبت اور کالے کوٹھے والے کی اس سے محبت بھری باتیں۔۔۔ وہ وہاں مقدس جگہ پر فنا ہو جانا چاہتا تھا۔ ممتاز اپنے متعلق کہتا ہے کہ وہ ایک مکمل دنیادار انسان تھا اور اسے حج سے اللہ سے کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن حج پہ جا کے اس نے خدا کی تلاش کی اور اس نے خدا کو پہلی دفعہ پا لیا۔
تصوف کا عنصر اس میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔۔۔ عشق جب انگڑائی لیتا ہے تو عقل چپ چاپ سو جاتی ہے ، عشق اور عقل کی جنگ میں عشق کو جتنے کوڑے سہنے پڑتے ہیں ، پھر بالآخر فتح بھی عشق کی ہوتی ہے۔۔۔
بھلا عشق میں کوئی ناچتا ہے کیا۔۔۔ عشق کی زبان میں صرف اتنا کہہ دینا کہ “اللہ جی آپ کتنے پیارے ہیں” بہت سارے وظائف و عبادات سے بہتر ہے۔۔۔
اور یہی رنگ ممتاز کی لبیک میں نظر آتا ہے۔۔۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.