26 ویں ترمیم
آخر اُونٹ اپنی کروٹ بیٹھ گیا ۔ اور قوم میں۔ جو ہیجان۔ کی کیفیت جنم لے رہی تھی وہ ختم ہوئی ۔ قوم کو مبارک ہو 26ویں ترمیم کثرتِ رائے سے منظور ہو گئی ۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ رات بھر قومی اسمبلی کے اجلاس کو جاری رکھنے کے بعد صبح سویرے آئین میں ترمیم منظور کرالی گئی ۔
سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی 26 آئینی ترمیم کی منظوری لے لی گئ، حکومت دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ابتدائی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تاہم بعد میں اپوزیشن ارکان بائیکاٹ کرکے ایوان سے باہر چلے گئے۔
ایوان میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے تاہم ترمیم پر شق وار منظوری کے دوران 225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
آئینی ترمیم کے حق میں 6 منحرف اراکین نے بھی ووٹ دیا، جن میں پانچ کا تعلق پی ٹی آئی جبکہ ایک کا تعلق ق لیگ سے بتایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین میں حکومت کی پسند کی ترامیم کو منظور کرانے کے لئے ساری رات قومی اسمبلی کی کاروائی جاری رہی صبح 5 بجےعمل مکمل کیا گیا 15منٹ بعد اسمبلی سیکرٹیریٹ نےسمری وزیراعظم کو ارسال کی 15 منٹ بعدسمری ایوان صدر کو بھیجی صدر کوجگا کرمنظوری لینے کی کوشش کی گئ لیکن یہ کوشش فی الحال کامیاب نہیں ہوئی۔ بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اجلاس منگل کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا۔26ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں 26 ترامیم شامل
مسودے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز
جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔ تجویز
آئینی بینچز کا سینیئر ترین جج پریزائڈنگ جج ہو گا
آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے، تجویز
آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ تجویز
آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ تجویز
آرٹیکل 186 کے تحت ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچز کے ہوں گے
چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔ تجویز
پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی
کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے ۔
کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔ تجویز
چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی ۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پہلی مرتبہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے تین دن قبل نام بھجوایا جائے گا، ترمیم بعد ازاں چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی 14 روز قبل نام بھجوائے گی ۔
پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی ۔ چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی ۔آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔
جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔
چیف جسٹس کی زیر صدارت کمیشن میں آئینی بینچز کا پریزیڈنگ جج بھی ہوگا
کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔
کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔
دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔
مسودے میں آرٹیکل 38 میں ترمیم کی ۔ یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔
وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ چیف الیکشن کمشنر یا رکن ریٹائرمنٹ کے بعد نئے تقرر تک کام جاری رکھے گا۔
آرٹیکل 63 اے میں مجوزہ ترمیم نکال دی گئی ۔
آرمی چیف کے عہدے کی مدت پانچ سال ہوگی۔ آرمی ایکٹ آئین کا حصہ ہوگا۔ اس میں تبدیلی صرف آئینی ترمیم سے ممکن ہوگی۔
نئی آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس وزیراعظم کی سفارش سے مقرر ہوگا اور اولین ججز کی تقرری اس چیف جسٹس کی مشاورت سے ہو گی۔
نئی آئینی عدالت کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہو گا جس کی ریٹائرمنٹ عمر 68 سال ہو گی جبکہ سپریم کورٹ کا سربراہ صرف چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کہلائے گا۔
ججز کے احتساب کے لیے قائم آئینی ادارے سپریم جوڈیشل کونسل کا سربراہ بھی نئی آئینی عدالت کا چیف جسٹس ہی ہوگا۔
ججز سے متعلقہ معاملات اور فیصلوں کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جاسکے گا۔
کنٹونمنٹ ایریاز میں آرمڈ فورسز کو ٹیکسز، ٹولز یا دیگر سروسز کے چارجز لگانے کا بھی اختیار دینے کی تجویز ہے۔۔
چیف الیکشن کمشنر اور ممبران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام جاری رکھیں گے، جب تک ان کی جگہ نئی تعیناتی نہیں ہوجاتی۔
یہی نہیں جو شخص پہلے کمشنر یا ممبر رہ چکا ہو اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے قرارداد منظور کروا کر دوبارہ تین سال کے لیے عہدے پر تعینات کیا جاسکتا ہے.
سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا نئی مجوزہ وفاقی آئینی عدالت سمیت کسی بھی فورم پر کسی بھی گراونڈ کے تحت آئین کی کوئی شق یا ترمیم پر کسی قسم کا کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکے گا۔
فوجی عدالتوں کو مکمل آئینی تحفظ ملے گا۔ کسی بھی شہری کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا جاسکے گا۔
حکومت کی سفارش پر کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا فیصلہ بھی نئی آئینی عدالت کرے گی ۔ جس کا چیف جسٹس وزیراعظم مقرر کرے گا اور باقی سارے ججز وزیر اعظم کا مقرر کردہ چیف جسٹس منتخب کرے گا ۔
حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے جتنے چاہے ججز وفاقی آئینی عدالت میں تعینات کرسکے گی، جب تک پارلیمنٹ ججز کی تعداد اور تقرری کے طریقے کا تعین نہ کردے۔ آرٹیکل 179 بی کے اضافے کے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کی خالی سیٹ پر حکومت کوئی ریٹائرڈ جج عارضی جج کے طور پر لگا سکتا ہے۔ اور وہ تب تک لگا رہے گا جب تک صدر تعیناتی کالعدم نہ کردے۔ وفاقی آئینی عدالت ہی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے تنازعات کے کیسز سن سنے گی۔ بنیادی حقوق کے معاملات اور عوامی مفاد سے متعلقہ معاملے پر حتمی فیصلہ بھی دے سکے گی۔ سپریم کورٹ کی حیثیت صرف فوجداری و دیوانی مقدمات میں آخری کورٹ اوف اپیل کی ہوگی۔ سپریم کورٹ میں پینڈنگ آئینی کیسز وفاقی آئینی عدالت کو ٹرانسفر ہو جائیں گے۔ مجوزہ آئینی ترمیمی مسودے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 200 میں ترمیم کی جائیگی کہ کسی بھی ہائیکورٹ جج کو صدر جوڈیشل کمیشن کے طے کردہ دورانیے کیلیے کسی دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکے گا۔ وہ جج اپنی سروس کے حساب سے ہی سینئر یا جونیئر سمجھا جائیگا۔ ٹرانسفر ہونے والا جج اس ہائیکورٹ میں چیف جسٹس نہیں لگ سکے گا جہاں اسے ٹرانسفر کرکے بھیجا گیا ہو۔ گویا۔ وفاقی آئینی عدالت کے علاوہ کسی اور عدالت کے پاس خفیہ ایجنسیوں کے کام، طریقہ کار اور معاملات کو دیکھنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
ملک بھر کی تمام عدالتیں بشمول سپریم کورٹ، حکومتیں اور ادارے وفاقی آئینی عدالت کی ‘مدد’ کرنے کے پابند ہوں گے۔ نئی قائم ہونے والی وفاقی آئینی عدالت کے پاس ہر قسم کے ریویو کا اختیار پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط ہوگا۔
وفاقی آئینی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی ریویو کر سکے گی۔ اور اس کا فیصلہ تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی بائنڈنگ ہوگا۔ وفاقی آئینی عدالت کے پاس کسی بھی پروسیڈنگ کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں یا اپنے پاس ٹرانسفر کرنے کا اختیار ہوگا۔
اگر کہیں سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے درمیان دائرہ اختیار کا مسئلہ پیدا ہوا تو اس کو وفاقی آئینی عدالت ہی طے کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🔷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔