یونیسکو بین الاقوامی دن برائے فنون اسلامی کے حوالے سے نمائش کی روداد
ایوان علم و فن کے زیر اہتمام اسلامی فنون لطیفہ کے قرآنی اور اسلامی ، تہذیبی فن پاروں کی نمائش کا افتتاح عزت مآب جناب میاں انجم نثار نے اپنے دست مبارک سے کیا یہ وہ سعادت ہے جس کی تمنا بڑے بڑے شہنشاہوں کے دلوں میں کروٹیں لیتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سعادت، یہ شرف، یہ اعزاز فضیلت مآب جناب میاں انجم نثار کے انکسار کی بدولت انہیں ملا ، یہ بہت بڑا اعزاز اور سعادت فضیلت مآب میاں انجم نثار کے حصے میں آئی اور یہ اعزاز اس لیے بھی آپ کو ملا کہ آپ جمالیاتی ذوق اور اسلامی فنون لطیفہ سے محبت کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ایوان علم و فن کے سربراہ جناب عرفان احمد قریشی کی محنت شاقہ اور مہارت تامہ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انہیں مبارکباد اور خراج تحسین پیش کیا میاں انجم نثار نے عرفان احمد قریشی اور ان کی پوری ٹیم ایوان علم و فن کے منتظمین کی تعریف کی اور کہا کہ آپ لوگ اقبال کے نظریہ ء علم و فن کے فلسفے پر چل رہے ہیں اقبال علم و فن ، شعر و ادب اور زندگی کے دوسرے مسائل کے بارے میں ایک خاص رائے رکھتے تھے جو ان کے خیالات و تجربات کی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی ان کی ایک رائے یہ تھی کہ شعر و ادب خطاطی و مصوری کا ملکہ اور ذوق سلیم خدا کا عظیم عطیہ اور ناقابل تسخیر ہتھیار ہے جس سے افکار و معاشرت میں انقلاب لایا جا سکتا ہے اور فاسد ماحول کے خلاف دلوں میں غضب و انتقام اور طبیعتوں میں اضطراب پیدا کیا جا سکتا ہے اور پھر غلط نظریات کی جڑ کاٹ کر صالح اور صحت مند اقدار کی آبیاری کی جا سکتی ہے اس لیے شاعر و مصور و خطاط کے قلم میں وہ تاثیر اور قوت تسخیر ہونی چاہیے جو اعصائے موسی، ید بیضا اور دم عیسیٰ میں تھی اسے دلبری اور قاھری کے ساتھ عالم انسانیت میں پیغامبری کا رول بھی ادا کرنا چاہیے فضیلت مآب جناب میاں انجم نثار نے ایران کے مصوروں اور خطاط فن کاروں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں اقبال لاہوری کا پورا ایران گرویدہ ہے ایران کی زبان فارسی ہے اور ہماری اردو زبان فارسی کا دودھ پی کر جوان ہوئی ہے ہم ان کے ممنون احسان ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اردو اور اسلامی فنون لطیفہ کے محسن ہیں۔ فضیلت مآب جناب میاں انجم نثار کیلیگرافی آرٹسٹ عرفان احمد قریشی کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کر رہے تھے عرفان احمد قریشی نے انہیں بتایا کہ ہمارے اسلاف کے سارے اسلامی فن پارے جو اندلس ، ایران اور ترکی کی لائبریریوں میں تھے وہ انگریز یہاں سے برطانیہ لے گئے اور یہ حقیقت ہے کہ
وہ جو میں نے تراشے تھے تیرے تصور میں کبھی
وہ بھی لے گئے میرے گھر سے پجاری پتھر
ا
آج ہم اپنے اسلاف کی عظمت رفتہ کی بازیابی پر کام کر رہے ہیں اور یہ قرآن کریم آپ دیکھ رہے ہیں ، جس کے چند نمونے الحمرا آرٹس کونسل کی دیوار پر آویزاں ہیں سونے سے لکھے جا رہے ہیں اور یہ ساری کاوش اللہ کی نوازش ہے عرفان قریشی نے اپنے شریک کار جناب نصیر بلوچ کا بھی ذکر کیا جو قرآنی سوچ رکھتے ہیں جن کا ذوق نظر اس شے کا غماز تھا کہ وہ شے کی حقیقت کو دیکھنے والی نظر رکھتے ہیں ۔ اسلام کے زیر اثر اقبال نے فنون لطیفہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کا صحیح مقام و پیغام متعین کیا وہ فنکار کی تخلیق کے دل سے قائل اور قدرداں ہیں لیکن فنون لطیفہ میں وہ شعر و ادب اور فلسفہ کو اولین مقام دیتے ہیں نغمہ و آھنگ اور خشت و سنگ کو ان کے ہاں ثانوی درجہ حاصل ہے اس لیے کہ وہ ان سب کی بنیاد فکر و خیال کو قرار دیتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ خطاطی جو ہے وہ ہماری اسلامی فن کی معراج ہے
جہان تازہ کی افکار ء تازہ سے ہے نمود
کہ خشت و سنگ سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے
اس آبجو سے کیئے بحر بیکراں پیدا
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا
ایوان صنعت و تجارت میں موجود متحرک خاتون محترمہ فردوس نثار کا ایثار اور ان کا شعار قابل تحسین ہے کہ انہوں نے اپنے تجارتی رہنماؤں کی صحیح مشاورت کی اور ان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس موقع پر سینیئر وائس پریزیڈنٹ جناب ظفر محمود چوھدری کی موجودگی بھی ماحول میں آسودگی پیدا کر رہی تھی ۔ ملک کے نامور خطاط جناب عرفان احمد قریشی اگر یہ نمائش ایران ، ترکی ، اسلامی ممالک میں کرواتے تو ان ملکوں کے سربراہوں کے دلوں میں یہ خواہش خود کروٹیں لیتی کہ کاش ہمیں اس نمائش کا اپنے ہاتھ سے فیتہ کاٹنے کی سعادت ملتی ، مگر
ایں سعادت بزور بازو نیست
یہ سعادت اس جلیل القدر ہستی کو ملی جس کی طبیعت میں خاکساری اور عاجزی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ میاں انجم نثار کی سرشت میں ہے کہ
خاکساروں سے خاکساری تھی
سر بلندوں سے خاکسار نہ تھا
انتخابی مہم کے دوران میں نے انہیں جوش و جذبے کے ساتھ بولتے دیکھا اور یہ حقیقت ہے کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ
جس سے جگر لالہ میں ہو ٹھنڈک وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
میاں انجم نثار شعلہ و شبنم کا آمیختہ ہیں میں نے ان کے انکسار میں افتخار تلاش کیا ہے اور یہ سعادت یوں ہی آپ کو نہیں مل گئی اس کا تعلق آپ کے کردار سے ہے اور پاکیزہ کردار کے مالک فضیلت مآب میاں انجم نثار جو ایوان صنعت و تجارت کے سرپرست اعلیٰ اور کئی تنظیموں کے سرپرست ہیں یہ سعادت ان کے حصے میں آئی ہے اور یہ غیر معمولی اعزاز ہے وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو دانا مشیر مل جاتے ہیں نپولین بونا پارٹ نے تو کہا تھا کہ میں کسی دانا دشمن کے ساتھ پوری زندگی جیل رہ سکتا ہوں لیکن میں کسی نادان دوست کے ساتھ 15 منٹ جنت میں نہیں ٹھہر سکتا ، میں محسوس کرتا ہوں کہ ایوان صنعت و تجارت کی قیادت جن ہاتھوں میں ہے وہ ملک و ملت کے محسن اور حقیقی قیادت کے مستحق ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی معاشی زلف پریشاں کو سنوارنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ایسے لوگوں کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے تاریخ ساز اسلامی فنون لطیفہ کے قرآنی فن پاروں کا بے کراں طلاطم خیز جذبات کا سمندر اور اس کی لہریں منتہا کو چھوتی ہوئی احساسات و جذبات میں طلاطم خیز کیفیت میں فن خطاطی کے عجوبہ ء روزگار اسلامی فن اعجاز اور سادگی و پرکاری و جمال کی رعنائی اور حسن کی یکتائی کے اوصاف حمیدہ کا پیکر متحرک مہمان خصوصی عزت مآب جناب میاں انجم نثار نے اپنے بصیرت افروز مشاہدہ و مطالعہ سے قرآنی فن پاروں کو چھوا ۔اور خوب داد دی اپنے شاندار الفاظ میں نابغہ ء ادراک خطاط جناب عرفان احمد قریشی اور عالمی مصور شفیق احمد فاروقی کو خراج تحسین پیش کیا بقول حضرت علامہ اقبال جو فلسفہ خون جگر سے نہیں لکھا جاتا اور جس آرٹ اور فن میں فنکار کا خون دل شامل نہیں ہوتا اور جس شاہکار کے لیے ادیب و مصور کا موئے قلم روح کی روشنائی میں نہیں ڈوبا ہوتا وہ سطحی، مصنوعی اور لفظ و صوت، رنگ و روغن اور کنکر پتھر کا ایک خالی خولی ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں نہ جان ہوتی ہے نہ زندگی کی تازگی اور رعنائی ، فنی شاہکار گہری محبت ، جذبہ کی گرمی اور خلوص کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے محبت ہی پتھر کے مجسمہ اور زندہ انسان میں فرق و امتیاز پیدا کرتی ہے اور محبت کا جب کوئی قطرہ ء حیات پتھر پر گر جاتا ہے تو وہ بھی دل کی طرح دھڑکنے اور زندگی کا ثبوت دینے لگتا ہے اور جب اس سے انسانی دل بھی خالی ہوتا ہے تو وہ دل ، دل نہیں پتھر کی سل سمجھا جاتا ہے
علامہ اقبال مصوری میں انسانی شخصیت کی نمود اور تعمیر انسانیت کے کسی پیام کا وجود ضروری سمجھتے ہیں اور اسی لیے مشرقی مصوری کی روحانیت کے قائل اور مغرب کی تجریدی مصوری سے نفور ہیں مصوری و خطاطی میں تقسیم جذبات و احساسات کی نقش آرائی اور صورت گری انہیں پسند ہے اور سطحی اور وقتی خیالات کے وہ قائل نہیں مشرقی خطاطی و مصوری کا ازلی سوز و سرور اور اس کی روحانیت انہیں دل سے پسند ہے
مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بیٹھے مشرق کا سرور ازلی بھی
فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ ء فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
آئینہ فطرت میں اس وقت ہمارے خطاط اعظم الہامی لفظوں کے مصور ہمارے محبوب محسن اسلامی فنون لطیفہ محترم المقام جناب عرفان احمد قریشی کی اسلامی فنون و علوم کی دنیا میں خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو قرآنی فن پاروں کی نمائش کا افتتاح اپنے دست مبارک سے کرتے اور روحانی مسرت محسوس فرماتے ۔ ایوان علم و فن کے سربراہ جناب عرفان احمد قریشی کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق اور خاص طور پر محترمہ فردوس نثار جن کی خصوصی استدعا پر مہمان خصوصی فضیلت مآب جناب میاں انجم نثار اور جناب ظفر محمود چوہدری تشریف لائے ۔ اسلامک کلچر اینڈ ریلیشن آرگنائزیشن کے وائس چیئرمین فضیلت مآب ڈاکٹر حسین پور اور ایشیا ڈیسک کے سربراہ ڈاکٹر عادل خانی اور ایرانی کیلیگرافی آرٹسٹ سعید کامران ڈی جی خانہ ء فرھنگ اسلامی جمہوریہ ایران لاہور ڈاکٹر اصغر مسعودی، سینیئر وائس پریزیڈنٹ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ظفر محمود چوہدری نے قرآنی فن پاروں کی تعریف کی خطاط و مصور دونوں کی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا ۔
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ھاتھ گھل جاتے ہیں تب کوزہ گری آتی ہے
قرآنی فن پاروں کے خالق و خطاط جناب عرفان احمد قریشی الہامی لفظوں کو خطاطی کے پیکر میں طشتری پر موتیوں کی طرح جڑ دینے والے عظیم خطاط کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور ان کے فن کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی کی کامیابی پر ان کی سرپرستی کرنی چاہئے ۔ لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں بنگش ایوان علم و فن کے سرپرست اعلیٰ ہیں اور کرنل مقصود مظہر کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ۔ ایوان علم و فن اور ایوان صنعت و تجارت کے حسین اشتراک سے مستقبل میں بین الاقوامی سطح پر اسلامی فنون لطیفہ کے قرآنی فن پاروں کی نمائش کا اہتمام ہو سکتا ہے ۔ میں خاص طور پر محترمہ فردوس نثار کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس سعادت ، اس شرف اور اس اعزاز کو جناب میاں انجم نثار کے قرطاس اعزاز پر ثبت کر دیا اور ارباب ذوق کی منزل جمیل تک پہنچا دیا ۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
مہمان خصوصی میاں انجم نثار نے خطاطی کے فن پاروں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے روحانی مسرت محسوس کی اور اس نمائش کے عقب میں جو روحانی منصوبہ ساز ذہن کار فرما ہے اس کی بے پناہ تعریف کرتے ہوئے عرفان احمد قریشی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا عرفان قریشی کو اللہ تعالی نے غیر معمولی اور معجزانہ صلاحیتوں سے سرفراز کیا ہے اور یہ ہمارے وطن عزیز کی اسلامی ثقافت کے سچے پرچارک ہیں بقول اقبال فنکار کو فطرت کی بازیافت نہیں بلکہ اپنے اندر کے مافوق الفطرت عناصر سے فطرت پر اضافہ بھی کرنا چاہیے اور حیات و کائنات میں ایک دوسری حیات و کائنات کی طرح نو ڈالنا چاہیے اور اپنی روح کے وفور اور فراوانی سے زندگی کے ہر خلا کو پر کر دینا چاہیے ۔ مہمان خصوصی فضیلت مآب میاں انجم نثار نے مزید کہا کہ فن کار کے لیے تسخیر کائنات سے پہلے تسخیر ذات اور تعمیر خودی ضروری ہے انہی بنیادوں پر فرد اپنی تکمیل کے بعد وجود کائنات کا اہم جز بن جاتا اور رفتہ رفتہ کائنات پر چھا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ اسلامی فنون لطیفہ کے فن پاروں کی زیارت کر کے میں نے اپنے جذبات میں رفعت محسوس کی اور اس سے پہلے ایسی بلندی نصیب نہیں ہوئی تھی یہ اعزاز کی بات ھے اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے انہوں نے ایوان علم و فن کے زیر اہتمام ہونے والی اس اسلامی فنون لطیفہ قرآنی فن پاروں کی کاوش کو اللہ کی نوازش قرار دیا اور کہا کہ مجھے یہ سعادت روحانی طور پر تسکین قلبی فراہم کر رہی ہے ۔
یونیسکو نے 18 نومبر کو اسلامی فن کا عالمی دن قرار دیا ہے ۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے یہ قدم فن کی دنیا میں اسلام کی شاندار خدمات کو سراہنے کا اعتراف ہے ۔
اسلامی آرٹ نے نہ صرف دیگر فنکارانہ تحریکوں کو متاثر کیا ہے بلکہ ثقافتی تنوع ، اظہار رائے کی آزادی ، ثقافتی ورثے کی حفاظت اور بین الثقافتی مکالمے پر بھی اس کا گہرا اثر ہے ۔ مذہبی پابندیوں کی وجہ سے اسلامی فن میں تصویر کی ممانعت ہے ۔ لیکن اس کا کینوس بہت وسیع ہے یہ کسی مخصوص مذہب ، وقت ، مقام یا کسی ایک ذریعہ کا فن نہیں ہے ۔ یہ تقریباً 1400 سالہ تخلیقی دور ، مختلف علاقہ جات اور سماجوں پر محیط ہے اور اس میں فن تعمیر ، خطاطی ، مصوری ، شیشہ گری ، ظروف سازی اور پارچہ بافی سمیت دیگر فنکارانہ شعبے شامل ہیں ۔ موسمی تبدیلیوں ، ماحول کی آلودگی اور سموگ کی وجہ سے انٹرنیشنل اسلامک آرٹ فیسٹیول رواں سال منعقد کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اس لئیے اب یہ فروری 2025 میں ہو گا ۔ جس کے لئیے انتظامات کر لیئے گئے ہیں ۔
ایرانی وفد نے عرفان احمد قریشی کے فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کی محنت ، محویت ، مقصد سے عشق اور نصب العین کے لیے خلوص و لگن کو پسندیدگی اور ان کے ذوق سلیم کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے خوب داد دی اور آخر میں علامہ اقبال کی ضرب کلیم میں فنون لطیفہ کی ہر اصناف سے انصاف کیا گیا ہے
خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات
فطرت لہو ترنگ ہے، غافل نہ جل ترنگ
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جوہر نفس سے کرے عمرجاوداں پیدا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
ہوتا ہے مگر محنت پرواز سے روشن
یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے
ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے
بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے
ہر لحظ نیا طور نئی برق تجلی ،
اللہ کرے مرحلہ ء شوق نہ ہو طے
اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ
از ہرچہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز !
ہر چند کہ ایجاد و معانی ہے خداداد
کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد
خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
میخانہ ء حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد
بے محنت پہیم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانہء فرہاد
اس بین الاقوامی اسلامی فن پاروں کی نمائش میں جواں سال ماہر تعلیم فہد عباس، سماجی تاجر شخصیت افتخار ناصر، جناب عبدالسمیع المعروف سمی، ممتاز روحانی شخصیت الحاج شبیر احمد، محترمہ شائستہ ریاض ، محترم ریاض احمد بھیکھ، شاعر و صحافی ولایت احمد فاروقی ، جناب عامر فاروقی ، محترمہ ڈاکٹر ثمینہ اور ایرانی وفد ڈاکٹر اصغر مسعودی کی معیت میں دیر تک اپنے ذوق جمال کی تسکین کا سامان جمع کرتے رہے۔