میڈیاکا کردار

0 296
 جدید ترین دور میں بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی میں ایک اہم کردار میڈیا کا بھی ہے جو لوگوں کے مختلف خواہشات اور اظہارات میں اضافہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اور اسی مشینری اور اسی ٹیکنالوجی کے بدولت اس وقت مختلف اقسام کی بہتری اور اہم اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ہمیں عیش وآسائش بہتر سے بہتر انداز ٹینالوجی کے بدولت ملتی جارہی ہے۔ اگر ہم اس بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے بارے میں تیس سال آگے کی سوچے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے والدین، بہن بھائی ، رشتہ دار ، پڑوسی سب کچھ کچھ ہی دنوں میں بھول جائیگا کیونکہ میرے خیال میں آنی والی نسل اس طرح ترقی کرنا چاہتا ہے کہ اگر کوءسانس بھی لے تو مشین کے زریعے لے۔ اور اس کی زندگی اسی کے زریعے چلتی رہی گی۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ پڑھنے اور خاص کر لکھنے کے خاص شوق رکھتے تھے جسے زمانہ جاہلیت یا قبل از اسلام بھی کہتے ہیں۔ تو کیا قبل از اسلام کوئی میڈیا نہیں تھا کوئی قابل انسان نہیں تھے کوءٹیکنالوجی نہیں تھا کوءدل کی خون کو چلانے والی میشینری نہیں تھی کوءقانون نہیں تھا ہاں جبکہ قانون تو تھا ( جیسا کہ موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت ) بلکہ اس کی کوءخاصیت نہیں تھی بس یہی وجہ تھا کہ سب لوگوں کی اپنی ہمت ، اپنی کامیابی کی جنون وجزبہ اور جدوجہد ختم ہو چکی تھی اور ہر طرف جہالت ہی جہالت پھیلی ہوئی تھی۔ تو کیا اس وقت میڈیا نہیں تھا نہیں جناب میڈیا تو نبیوں کا کام ہے۔یہ ایک اہم پیشہ ہے۔ اس کی کوءمثال ہی نہیں لیکن دنیا میں کوءایسا چیز نہیں جس میں آڑ نہ ہوں۔
 سنیئر صحافی “حامد میر” قلم کمان میں لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان الگ ہونے کے کچھ عرصہ بعد لاہور شہر میں ایک جگہ جب بزرگ صحافی ” حبیب جالب” کا جگھڑا کسی پولیس والے کے ساتھ ہوا تو قریب ہی ان کے دوست “آغا شورش کاشمیری” کے ہفت روزہ اخبار کا دفتر تھا جہاں پرآغا صاحب کو حبیب جالب کا خبر ہوتے ہی اپنے دفتر سے بھاگ کر آئے اور اس پولیس والے کو ایسا پیٹا کہ لوگوں میں ہلا گلا مچ گیا اور اس کے بعد دھرنا بھی دیا۔یہ دہرنا کی اطلاع گورنر پنجاب کو ہونے کے باوجود ختم نہیں کیا گیا جب ذوالفقارعلی بھٹو کو معلوم ہوا تو انہوں بطور وزیر اعظم ہوکے صلہ کروا کے اہم فیصلہ صحافیوں کے حق میں دیا۔
 اس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ گلے میں کارڈ لٹکانے سے کوءصحافی نہیں بنتا یا سو سو کے قلم اٹھانا آسان نہیں ہوتا سوشل میڈیا پر جو کچھ جو لوگ صحفت پر داغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس لئے کہ کہ جب وہ اپنے کو آئینہ یا کسی کی اور کی نظر سے دہکھے تو انہے لگے کہ وہ عقل مند، شہرت اور شعور کے حامل ہیں۔ صحافی حضرات اپنی فرض پوری طرح سے جانتے ہیں کسی اور کو سیکھانے کی ضرورت نہیں۔ اور آج اگر آج صحافت پر یہ داغ کا دھبہ ہے تو ذمیداران حکومت اور سوشل ورکرز ہیں جو اپنی فائدے کے لئے دوسروں کو تیر مارتے ہیں۔
You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.