بلوچستان کے حقوق کی بات

0 124

ایک عرصہ ہواحقوق بلوچستان پر مباحثے بور مزاکرے ہو رہے ہیں ، مگر شاید عملی طور پر عوام اپنے حقوق سے تا دم تحریر محروم ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
قدرتی گیس کے وسائل سے مالا مال بلوچستان ناراض ہورہا ہے، واجبات کی عدم ادائیگی پر بلوچستان نے وفاق کو گیس بند کرنے کی دھمکی دے دی۔صوبائی وزیر خزانہ زمرک خان اچکزئی نے نمائندہ سماء سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اس وقت مشکل میں ہے، وفاق فوری مدد کرے، خیرات نہیں بلکہ اپنا حق مانگ ہے ہیں، اگر 75 ارب روپے کے بقایا جات مل جائیں تو بحران ختم ہوسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر بقایا جات نہ ملے تو بلوچستان سے گیس کی سپلائی کو بھی بند کرنے کا آپشن موجود ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے کو اختیار حاصل ہے، صوبے سے گیس سپلائی جاری ہے، بقایا جات نہیں مل رہے۔زمرک اچکزئی نے کہا کہ وفاق کو مشکلات سے متعلق دو ٹوک الفاظ میں بتادیا، وفاق ڈوبنے سے پہلے مدد کرے، پی پی ایل کے ذمہ بلوچستان کے 30 ارب روپے کے بقایاجات ہیں، 15 دن میں بقایا جات نہیں ملے تو بلوچستان حکومت فیصلہ کرے گی۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہم وفاق کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، اکائیاں کمزور ہوں گی تو وفاق کمزور ہوگا، اگر گودار، سینڈک اور ریکوڈک ہمیں دے دیں ہم پورا ملک چلا سکتے ہیں۔دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ وفاق نے بلوچستان کے رواں مالی سال کے 40جبکہ گزشتہ مالی کے 11ارب روپے ادا نہیں کئے فوری طور پر فنڈز ریلیز نہ کئے گئے تو آئندہ ماہ ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں ہونگے ،وفاق سے پیکج نہیں بلکہ اپنا آئینی حق مانگ رہے ہیں، ملک میں نئے انتخابات کے لئے 75ارب روپے درکار ہیں انتخابات کے لئے معاشی استحکام ضروری ہے ،سیلاب کے لئے آنے والے 10ارب ڈالر میں سے آدھا حصہ بلوچستان کو ملنا چاہیے ،اب تک وفاق نے صوبے کو سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے کوئی رقم نہیں دی، اگر آئی ایم ایف یا کوئی دوسرا ادارہ ملک کو پیسے نہیں دے رہا تو اس میں مرکز کا قصور ہے صوبے کا نہیں ۔یہ بات انہوں نے جمعرات کو اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر ناشناس لہڑی بھی موجود تھے ۔ میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ پوری دنیامیں اس وقت معاشی بحران ہے جس نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے بلوچستان اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہے صوبے کے پاس تنخواہیں ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل، سی پیک، ریکوڈک، سیندک ، معدنیات کے چرچے پوری دنیا میں ہیں ہم ایک امیر خطہ ہونے کے باوجود بھی غربت کا شکار ہیں مرکز صوبے کی طرف اپنی ذمہ داری کو احسن انداز میں نہیں بنھا رہا بلوچستان کا آئین کے تحت این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والا حصہ محفوظ ہے لیکن صوبے کو گزشتہ مالی سال کے دوران 11ارب روپے کم ملے جبکہ رواں مالی سال کے اس کوارٹر کی ادائیگی جو کہ 40ارب روپے کے قریب ہے نہیں کی گئی بلوچستان میں ترقیاتی کم ٹھپ ہوگئے ہیں پی ایس ڈی پی سے صوبے کا نظام چلتا ہے جو اس وقت منجمد ہے صوبے میں صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پاس سرکاری روزگار اور پی ایس ڈی پی سے ہونے والی آمدن کے ذرائع ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جینوا میں ڈٖونر کانفرنس میں بلوچستان کی سیلاب سے تباہی دیکھا کر کے 10ارب ڈالر کی امداد حاصل کی گئی ہے اس امداد پر سب سے پہلا اور زیادہ حق بلوچستان کا ہے کیونکہ صوبہ پاکستان کا آدھا حصہ اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہے اگر 10ارب ڈالر میں سے ابتدائی طور پر بلوچستان کو 2ارب ڈالر ملیں تو وقتی طور پر صوبے کے بنیادی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد پاکستان کو دنیا بھر سے 2ہزار ملین روپے کی امداد ملی کہا گیا کہ صوبے کو 8ارب روپے دئیے جائیں گے یہ رقم پہلے 4ارب کی گئی پھر 2.5ارب اور آج کی تاریخ تک بلوچستان کو ایک ڈھیلہ بھی نہیں ملا ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا استحصال اور صوبے کے ساتھ ذیادتی ہورہی ہے ہمیں ہمارا آئینی حق دیا جائے وزیراعظم نے نصیر آباد اور قلعہ سیف اللہ میں 10ارب روپے دینے کا اعلان کیا لیکن اب تک ایک پیسہ نہیں ملاوزیراعظم نے صحبت پور میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور امداد کے بجائے ایک دانش اسکول کی مرمت کے کام کا جائزہ لیا بلوچستان کے عوام کو دیوار سے نہ لگایا جائے ہم جمہوری انداز میں اپنا احتجاج پارلیمان، میڈیا سمیت دیگر فورمزپر جاری رکھیں گے اور اپنا حق نہیں چھوڑیں گے ۔ میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے زمینداروں کے سیلاب میں 300ارب روپے کے نقصانات ہوئے ہیں ایران میں سیلاب آیا وہاں کی حکومت نے زمینداروں اور کسانوں کو قرض، ٹریکٹر، کھاد سمیت دیگر سہولیات مہیا کیں جس سے وہ آج دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہیں ہم نے وفاقی حکومت سے 10ہزار ٹریکٹر،200بلڈوزرمانگے وہ بھی نہیں دئیے گئے صوبائی حکومت نے پی ایس ڈی پی، نان ڈوپلمنٹ اخراجات ، آن گوئننگ اسکیمات پر کٹ لگایا اور اپنے وسائل سے 4ارب روپے کے بیج کسانوں میں تقسیم کئے ہیں صوبے کے زمیندار اور کسان سیلاب کے بعد ذہنی مریض بن گئے ہیں بلوچستان کے ساتھ استحصالی ذہنیت کو ختم کرکے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپناتے ہوئے زخموں پر ملحم رکھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے معیشت کی بہتری کے نعرے کے ساتھ آئی تھی آج ڈالر کی قیمت 260روپے تک پہنچ گئی ہے ،آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت دیگر مالیاتی ادارے ہمیں امداد اور قرض دینے کے لئے شرائط رکھ رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ہم قرض اور امداد کو درست انداز میں خرچ نہیں کریں گے پاکستان میں 75سال تک لئے گئے قرض کا 5فیصد بھی بلوچستان پر خرچ نہیں ہوا لیکن صوبے پر نقصان کا برابر بوجھ ڈالا جاتا ہے ۔اگر مرکز کی آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں ہورہی تو یہ مرکز کی ناکام ہے ہم وفاق سے خصوصی پیکج نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں ۔وفاق نے اگر چہ بلوچستان کو فنڈز دینے سے انکا ر نہیں کیا لیکن انکی ہاں آج بھی کمزور ہے مرکز سے معلوم نہیں کہ وہ پیسے کب دیں گے کیا یہ رقم کسی اونٹ پر لاد کر لائی جارہی ہے جو صوبے کو اب تک پیسے نہیں ملے ؟ صوبے کے مالی حالات کا یہی سلسلہ جاری رہا تو اگلے ماہ ملازمین کو تنخواہیں بھی ادا نہیں کرسکیں گے۔ایک سوال کے جواب میں میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں نئے انتخابات کروانے کے لئے 75ارب روپے کی ضرورت ہے اس رقم کے لئے معیشت کا مستحکم ہونا ضروری ہے خزانے میں پیسے نہیں ہیں کیا ہم ہر چیز کے لئے چندہ اکھٹا کریں گے ملک ایسے نہیں چلائے جاتے تمام جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے ملک بچانے کا سوچیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت انقلاب کی ضرورت ہے یہ انقلاب جمہوری ہونا چاہیے جہاں عوام کرپٹ اور غلط لوگوں کو پارلیمان میں آنے سے روکیں جمہوریت میں مداخلت اور پیرا شوٹر کاروباری لوگوں کا اسمبلی میں آنا بند ہوناچاہیے ملک میں چار سے پانچ بار شفاف انتخابات کے بعد ہی نظام بہتر انداز میں چل سکتا ہے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ زراعت کی 12سو آسامیوں پر 50ہزار لوگوں نے کاغذات جمع کروائے لیکن اس پر بھی سٹے لے لیا گیا بلوچستان میں انارکی کسی کے حق میں بھی نہیں ہے مرکز اور صوبوں کو ایک پیج پرآنا ہوگا

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.