عوام ساتھ ہو تو فوج کچھ بھی کر سکتی ہے ، میجر جنرل بابر افتخار

23 مارچ کو یوم پاکستان بھر پور طریقے سے منائیں گے

0 658

عوام ساتھ ہو تو فوج کچھ بھی کر سکتی ہے ، میجر جنرل بابر افتخار

راولپنڈی ڈیلی صحافت کوئٹہ ،ویب ڈیسک ) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کے حوالے سے رپورٹس کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے ،گزارش کرتا ہوں کہ اس پر مزید قیاس آرائیں نہ کی جائیں ،

عوام فوج کی طاقت ہوتی ہے عوام ساتھ ہو تو فوج کچھ بھی کر سکتی ہے ، اس بار23 مارچ کو یوم پاکستان بھر پور طریقے سے منائیں گے ،یوم پاکستان کامقصدہے ایک قوم،ایک منزل، ، عوام کے تعاون سے ہرچیلنج پرقابوپائیں گے،دہشت گردوں نے پاکستان کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جسے پاک فوج نے ناکام بنا دیا ہے ،

قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہوگئی ہے

امن کا سفر کامیابی سے جاری رہے گا ۔عوام کی مدد سے ہی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا ۔ قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہوگئی ہے طاقت کااستعمال صرف ریاست کی صوابدیدہے، آپریشن ردالفساد کو 4 سال مکمل ہوگئے۔نیشنل ایکشن پلان کے مکمل اہداف حاصل کریں گے،پاکستان نے افغان امن کیلئے بہت مثبت کرداراداکیا،پوری دنیاافغان امن کیلئے پاکستان کے کردارکوسراہتی ہے، پاکستان کے ڈوزیئرکوعالمی برادری نے سراہاہے۔پیر کے روز پاک فوج کے ترجمان اور شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آپریشن ردالفساد کا مقصد ایک پرامن اور مستحکم پاکستان تھا اور ہے اور ہر پاکستانی اس آپریشن کا سپاہی ہے۔ آپریشن ردالفساد کے 4 سال مکمل ہوگئے ہیں اور اس پر قوم کو آپریشن کے ثمرات اور ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال سے آگاہی دینا ہی اس پریس کانفرنس کا مقصد ہے ۔

 

انہوں نے کہا کہ 22 فروری 2017 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آپریشن ردالفسار کا آغاز کیا گیا، اس آپریشن کی بنیادی اہمیت جو اسے دیگر تمام اہمیت سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آپریشن کسی مخصوص علاقے پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس کا دائرہ کار پورے ملک پر محیط تھا اس کا سٹرٹیجک مقصد ایک پرامن، مستحکم پاکستان تھا اور ہے جس میں عوام کا ریاست پر اعتماد بحال ہو اور دہشت گردوں اور شرپسند عناصر کی آزادی کو سلب کرکے انہیں مکمل طور پر غیر مو ¿ثر کردیا جائے ردالفساد کا بنیادی محور عوام ہیں جبکہ جب مسلح فورس دہشت گردوں سے لڑ رہی ہوتی ہیں تو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرے کی طاقت سے شکست دی جاسکتی ہے

اسی مناسبت سے ہر پاکستانی ناصرف اس آپریشن کا حصہ ہے بلکہ پوری قوم کی سوچ کے تحت ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے۔انہو ںنے کہاکہ 2017 میں یہ آپریشن دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا جب دہشت گردوں نے قبائلی اضلاع میں اپنے انفرااسٹرکچر کی تباہی اور مختلف آپریشن میں بھاری تباہی اٹھانے کے بعد پاکستان کے طول و عرض میں پناہ لینے کی کوشش کی، دہشت گرد، ان کے سہولت کار شہروں، قصبوں، دیہات، اسکولوں، مدارس، عبادت گاہوں، کاروباری مراکز حتیٰ کہ بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانا کر زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوششوں میں بھی مصروف تھے ایسے میں اس ماحول کو دیکھتے ہوئے ٹو پرونگ اسٹریجی کے تحت شروع کیا گیا،

جس میں ایک پرونگ انسداد دہشت گردی (کاو ¿نٹر ٹیررازم) کو دیکھتا تھا جبکہ دوسرا انسداد پرتشدد انتہا پسندی(کاو ¿نٹر وائلنٹ ایکسٹریم ازم) کو دیکھتا تھا، جہاں تک انسداد دہشت گردی پرونگ کا تعلق ہے تو اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہے، اس کے ساتھ مو ¿ثر بارڈر منیجمنٹ سسٹم کے ذریعے ویسٹرن زون کا مکمل استحکام اور ملک بھر میں دہشت گردوں کی حمایت کا خاتمہ شامل تھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے انسداد پرتشدد انتہا پسندی کی بات کریں تو یہ واضح ہے کہ ایک نظریہ کا مقابلہ صرف اس سے برتر نظریے یا دلیل کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے،

اسی تناظر میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، قبائلی علاقوں کی قومی دھارے میں شمولیت، تعلیمی مدرسہ اور پولیس ریفارم میں حکومتی کاوشوں میں بھرپور معاونت کے ذریعے شدت پسندی کے عوامل پر قابو پانا شامل تھا پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو بڑی حکمت عملی تھی تو اسے 4 الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں جو ’کلیئر، بولڈ، بلٹ اینڈ ٹرانسفر‘ تھے، یہ وہ 4 مراحل تھے

 

جس کے تحت ہم نے یہ لڑائی لڑی۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 2010 سے اگر 2017 تک دیکھیں تو کلیئر اور بولڈ مرحلے کے تحت بڑے آپریشن کے بعد مختلف علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کرایا جاچکا تھا اور قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہورہی تھی۔ ردالفساد بلٹ اینڈ ٹرانفسر مرحلے کا آغاز ہے، اس دوران مشکل سے حاصل ہونے والے فوائد کو ناقابل واپسی بنانا ہماری ذمہ داری تھی اور یہی چیز اصل میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی کا حقیقی پیمانہ بھی ہے، آپریشن کے ذریعے علاقہ صاف کرنے کے بعد سماجی و معاشی ترقی اور سول اداروں کی عمل داری دائمی امن کی جانب درست اقدام ہے اور اب اس کا اعتراف دنیا بھی کر رہی ہے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.