صوبہ بلوچستان کے اہم مسائل پر مولانا عبدالواسع کا موقف۔
تحریر: محمد حنیف کاکڑ راحت زئی
صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 347190 کلومیٹر ہے ۔ بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ جس کی سرزمین میں معدنیات کی کمی نہیں ہے قدرت نے اس سرزمین کو سونا، چاندی، گیس، تیل، پیڑول، ڈیزل، ایلومینیم ، باکسائٹ ،لیٹرائٹ ,کرومائٹ تانبا ،سیسہ,جست ,لوہا ، بڈنم ، یورینیم,ٹنگسٹن ,پلاٹینم
ٹائی ٹینیم, ذِرکن ،ایس بسٹاس ،فلورائیٹ ،جپسم
چونے کا پتھر ,مینگنیز , کوئلہ و دیگر معدنیات سے نوازا ہے۔
محسن بلوچستان اور جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر ایم۔این۔اے حضرت مولانا عبد الواسع صاحب نے کہا ہے کہ اس کے باوجود یہاں کے عوام غربت و کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔
گوادر کو سی پیک کا جھومر کہا جاتا ہے۔ ہر طرف گوادر ہی گوادر۔ لیکن گوادر کے عوام کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اندازہ کوئی لگا نہیں سکتا۔ میڈیا میں ہم گوادر کی تعریف تو سن سن کر تھک گئے ہیں کہ گوادر دبئی یا سنگاپور بننے جا رہا ہے،‘ یہ روز سننے میں آ رہا ہے، لیکن گوادر کے عوام کو صاف پانی پینے کے لیے میسر نہیں ہے۔
محسن بلوچستان حضرت مولانا عبدالواسع صاحب نے صوبہ بلوچستان کے تمام دھاتی و غیر دھاتی منرلز سمیت تمام ساحل وسائل پر بلوچستان کے لوگوں کا حق قرار دیا ہے۔صوبہ بلوچستان میں جتنے بھی معدنیات ہیں اور کان کنی کے ذریعے جو نکل رہے ہیں۔ اس پر صوبہ بلوچستان کے تمام پارٹیاں اور اسٹیک ہولڈرز کے مشاورت کے بغیر ان کا ٹینڈرز یا ٹھیکہ کوئی بھی انٹرنیشنل کمپنی کے ساتھ وفاقی حکومت معاہدہ نہیں کر سکتا ہے۔کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے آرٹیکل 172 کے تحت تیل و گیس ودیگر جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ ہوگا۔
اٹھارویں ترمیم پارلیمانی نظام کی مضبوطی، صوبائی خودمختاری اور اختیارات کو نچلے سطح پر منتقلی کا وہ مربوط پیکج ہے جس کے اوپر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ جمعیت علماء اسلام نے جمہوریت کے تحت اتفاق رائے پیدا کیا تھا۔
29 جون 2009 کو آئین میں اصلاحات اور جمہوریت پر عملدر آمد سے متعلق 27 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا پہلا باضابطہ اجلاس منعقد ہوا۔اور کمیٹی میں موجود چھوٹی بڑی تمام پارلیمانی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی تھی۔کمیٹی کے سو سے زیادہ باضابط اجلاس منعقد ہوئے اور آخر کار مکمل اتفاقِ رائے سے 8 اپریل 2010 کو یہ ترمیم پارلمینٹ سے منظور ہوئی اور 19 اپریل 2010 کے دن اس کا نفاذ کیا گیا۔
محسن بلوچستان حضرت مولانا عبد الواسع صاحب نے بھی بارہا قومی اسمبلی کے فلور سے بلوچستان تمام معدنیات پر اس صوبے کے عوام کے حقوق کا نعرہ حق بلند کیا ہے۔ اور مختلف پریس کانفرنسوں اور موقعوں پر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے۔
محسن بلوچستان حضرت مولانا عبد الواسع نےصوبہ بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کے ساتھ سیندک پروجیکٹ اور ریکوڈیک پروجیکٹ سمیت صوبے کے تمام معدنیات پر مختلف میٹنگز کی ہے ۔ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ذہن نشین کروایا ہے کہ بلوچستان کے سیندک اور ریکوڈک پروجیکٹ سمیت تمام معدنیات پر بلوچستان کے تمام پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرز کے بغیر آپ وفاقی حکومت کے ساتھ اکیلے مشاورت نہیں کر سکتے۔
جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر و ایم این اے حضرت مولانا عبد الواسع نے قومی اسمبلی کے فلور سے قدرتی اور معدنی وسائل کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے بے روزگار اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے وفاقی حکومت میں خالی پوسٹوں پر بھرتی کرنے کے لئے نہ صرف بلوچستان کی حِصّے کا کوٹہ سسٹم کو بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بلکہ وفاق میں بلوچستان کی خالی پوسٹوں پر تعنیاتی کا عمل شروع کرنے پر زور دیا ہے۔چونکہ 1973 میں قائم ہونے والے کوٹہ سسٹم کا مقصد ملک کے ترقی پذیر صوبوں کے لوگوں کو وفاقی اداروں میں روزگار فراہم کرنا تھا۔ لیکن ابھی تک وفاقی حکومت نے اس پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا ہے ۔
ہمیں حضرت مولانہ عبدالواسع کی صورت میں ایک سچا مسیحا، مخلص, غریب پرور رہنماء ملا ہے۔ جو بلوچستان کے ساحل وسائل سمیت اس صوبے کے طلباء ، بے روزگار نوجوانوں اور ان کے مختلف مراعات اور وظائف کے حوالے سے قومی اسمبلی میں موثر اواز بن چکا ہے۔ اور بلوچستان کے عوام کے احساسات کا ترجمان ہے۔ جو پارٹی کے صوبائی امیر ہونے کے تمام تر ذمہ داریاں نہایت ہی احسن طریقے سے سرانجام دے رہا ہے۔ لہٰذا بلوچستان کے غیور عوام مولانا عبدالواسع صاحب کو بلوچستان کے حقوق کے لیے ہر فورم پر جدوجہد کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔