ماہ ذوالحجہ کا پیغام، فضیلت واہمیت
تحریر:رخسانہ اسد لاہور ای میل:thegreatrukhsana@gmail.com
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے حکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کیلے ہرسال لوگ لاکھوں کے تعدا میں جوق درجوق حج بیت اللہ کا رخ کرتے ہیں حج دنیا کا سب سے بڑااجتماع ہے حج سیکورٹی،حفاظت،صحت وعلاج،نقل وحمل رہائش اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراہمی سعودی حکام کیلئے بہت بڑاچیلنج بھی ہوتا ہے ہرسال عازمین حج کی اتنی بڑی تعدادکیلئے رہائش،خوراک،نکاسی آب اور ہنگامی صورت سے نمٹنے کیلئے ہروقت تیاررہنا پڑتا ہے مگرسعودی حکومت غیرمعمولی انتظامات کرتی ہے دنیا بھرسے فریضہ حج کیلئے عازمین حجاز کا اضافہ ہوررہا ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری رہے گاسعودی حکومت کا کہنا ہے اس سال 30سے چالیس فیصدحجاج کرام کے زیادہ آنے کی توقع ہے حج کیلئے سیکورٹی کے فل پروف انتظامات کیے گئے ہیں 24گھنٹے وقفے وقفے سے ہیلی کاپٹربیت اللہ کے گرد چکرلگائیں گے تاکہ کسی ناگہانی صورت سے اللہ پاک بچائے اور شیاطین کی چالوں سے محفوظ رہا جائے باہر ممالک سے آئے عازمین حج کیلئے ٹریفک کی روانی کیلئے بھی ٹریفک وارڈنز کو ہدایت جاری کردی ہے تاکہ وہ لوگوں کوپریشانی سے نکال سکیں۔ سعودی عرب کے داخلی راستوں بڑی شاہراہوں،چوکوں اور جدہ کی طرف جانے والے راستوں کی بھی نگرانی کی جارہی ہے تاکہ آنے والے عازمین حجاز کو کسی پریشانی کاسامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ 8ذولحج سے 12ذوالحجہ کو بیت المقدس میں جو عبادات کیجاتی ہیں انہیں اسلامی اعتبارسے حج اور ان اداکی گئی عبادات کومناسک حج کہتے ہیں اس دنیا میں جتنے بھی صاحب استطاعت لوگ ہیں ان پر ایک مرتبہ حج فرض ہے اور باقی وہ جتنی مرتبہ بھی حج کرے گا وہ اس کا نوافل حج ہوگافرضیت حج کی پانچ شرطیں ہیں ایک مسلمان ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ غیرمذہب نہ تو حج کرسکتا ہے اور نہ ہی اس پرفرض ہے اسلیے کلمہ طیبہ دل سے پڑھنا اللہ کو لاشریک ماننا نبی کریم ﷺ کواللہ کا آخری نبی ماننا اور اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتابوں پر یقین لانا اس سے انسان مسلمان ہوتا ہے دوسری شرط عقل ہے یعنی پاگل مجنوں پرحج نا فرض ہے نہ ہی واجب ہے چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہیں کیوں کہ اسے اچھے برے اورنہ ہی حرام حلال کی تمیز ہے اسی وجہ سے پاگلوں اور مجنوں پربھی حج فرض نہیں تیسری شرط بلوغ ہے یعنی بچے پر بھی حج فرض نہیں کیونکہ بچے عبادات کو نہیں سمجھتے مگرجب وہ بلوغت سے نکل کے جوانی میں آتا ہے تو اس پر بھی حج فرض ہوجاتا ہے چوتھی شرط یہ کہ چوتھی شرط آزادی ہے کیونکہ آزادی اللہ پاک کی نعمت ہے غلام یا بندی پر حج فرض نہیں چاہے وہ مالدار،سمجھدار اوربالغ ہو مگرقیدی ہوتو اس پربھی حج فرض نہیں کیونکہ جب تک وہ آزاد نہ ہوگا اس پربھی حج فرض نہیں ہوگا مگرجب وہ اللہ کی رضا سے آزاد ہوگا تو اسے یہ فرض ضرور نبھانا ہوگاپانچویں شرط استطاعت ہے یعنی حج ان لوگوں پر فرض ہے جو جسمانی ومالی حالت سے مضبوط ہوں حضورنبی کریم ﷺ کاارشادربانی ہے جواللہ کے حکم کی تعمیل کوبجالاکے حج کرتا ہے اوردوران حج فسق وفجوز سے کام لے تو اسکے گناہ ایسے معاف کردیے جائیں گے جیسے کہ وہ ابھی ماں کے پیٹ سے جنما ہو۔فریضہ حج کی ادائی میں متعدد حکمتیں دکھائی دیتی ہیں پہلی حمت:دنیاوی مشاغل مال،اولاد،کاروبار،یہ سبھی امور ایسے ہیں جوانسان کواس کے رب سے دوررکھتے ہیں حج کی ادائی کیلئے ان سب کو عرصہ معین تک بھول کر رب کریم کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہوتی ہے2. اسلام میں ایثار قربانی کا رب کریم کے ساتھ قربت کا بہترین ذریعہ ہے تمام عبادات میں مالی قربانی و جسمانی قربانی اور حج مالی وجسمانی قربانی کا نا م ہے اور جو کوئی یہ دونوں قربانیاں دینے کیلئے راضی ہوجا تاہے تواللہ پاک کی قربت حاصل کرلیتا ہے 3. حج ہی ایک ایسا فریضہ ہے جہاں دنیا کے تمام مسلمان جمع ہوکرایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں جہاں امیرغریب میں کوئی انترنہیں ہوتا4. اسلام میں مساوات کے مسئلے کو جس طرح بیان کیاوہ کسی سے چھپا ہوا نہیں امیرغریب،بادشاہ یہاں تک کہ مخلتف زبانیں بولنے واولے ایک ہی رب کے سامنے ایک ہی لباس میں کھڑے ہو کے سرخم تسلیم کرتے ہیں اور اللہ کے حکم کی پیروری کرتے ہوئے صدائیں بلند کرتے ہیں لبیک الٰلھم لبیک 5. حج ایسا فریضہ ہے جس میں زمین کی سیرکرو کے ارشاد پر عمل بھی ہے اور گستاخ قوموں کی تباہی وبربادی کے مناظردیکھ کرعبرت بھی حاصل ہوتی ہے 6. اسلام کی ہرعبادات میں آپ کسی قسم کا لباس پہن سکتے ہیں مگر حج کے دوران خاص لباس پہن کرہی حاضری دینا لازم ہے یہ لباس کفن جیساہے تاکہ حج کرنے والا بندہ اپنی موت کو یادکرکرکے استغفارکرتارہے 7. تمام عبادات میں عقل دخل اورغلبہ ہے مگرحج ایسا فریضہ ہے جس میں عشق و محبت کی فوقیت حاصل ہے احرام کا لباس،بیت اللہ شریف کاطواف،صفامروہ کی سعی،منیٰ،عرفات مزدلہ کی وادیوں میں گھومنا،رمی جمار،قربانی یہ سبھی امورعشق ومحبت کو ظاہرکرتے ہیں 8. حج 9ہجری میں فرض ہوا اور بیت اللہ کفروشرک اور ظلمتون سے پاک ہوکرعبادات ابراہیمی کامرکز قرارپایا حج عمربھرمیں ایک بار ہر صاحب استطاعت مسلمانوں پر فرض ہے اس کے لیے مہنہ اور تاریخیں مقرر ہیں. ٭حج میں تین فرض اور پانچ واجبات ہیں،احرام باندھنا،عرفات میں ٹھرنا،طواف زیادت،(وقوف عرفات کے بعد 10ذوالحجہ کودوسراسرمنڈوانے یاکتروانے کے بعدکیا جاتا ہے) حج کے واجبات میں مزدلفہ میں وقوف،شیطان کوکنکریاں مارنا،قربانی کرنا،حلق/قصرکرنا،طواف زیارت کے بعد صفامروہ کو سعی کرنااور وطن لوٹنے سے پہلے طواف وداع کرلیا جائے تو دل کو دلی سکون ملتا ہے۔ آج کل لوگ حج عمرہ کرنے کیلئے جانے سے پہلے حج کے فرائض سے پہلے ایک سیلفی فیسبک پر ڈالنا فرض سمجھتے ہیں یہ کئی لوگوں کیلئے اذیت ہوتا ہے اور کئی لوگ مایوس ہوجاتے ہیں کہہ رب ہمیں موقع کیوں نہیں دیتا اسی وجہ سے میری ان لوگوں سے گزارش ہے کہ حج عمرہ کی سیلفی فیسبک پر ڈالنے سے پہلے ان لوگوں کے بارے میں ضرور سوچ لینا کہہ جو لوگ دو وقت کا کھانا پورانہیں کرسکتے وہ آپ کی سیلفی دیکھ کر مایوس نہ ہوں تو کیا کریں اورمایوسی گناہ ہے جس میں آپ بھی برابرکے شریک ہوجاتے ہیں کچھ لوگ حج عمرہ پرجانے سے خود کوعام لوگوں سے خود کو اعلیٰ یا خاص سمجھنے لگتے ہیں یہ تو رہی ہم عام لوگوں کی بات وہ لوگ مغرور نہ ہوئے جنہوں نے پانی کی پیاس کیلئے دوڑلگائی تواللہ پاک نے صفا مرواکی دورہی فرض وواجب میں شمارکردی اوروہ لوگ بھی اپنی مغفرت کی دعاکراتے رہے جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل گئی۔ اس موبائل کے دور میں جب کوئی حج کرنے جاتا ہے تو یاتو وہ دوستوں سے رخصتی کے وقت ملنے جاتاہے یا دوست مبارک دینے کیلئے دوڑے چلے آتے ہیں جس سے آپس میں پیار محبت بڑھتا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ حج اسلام کا آخری رکن ہے اور جس نے اسے پالیا اس نے کامل ایمان پا لیا مگرایک با ت کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ حج پرجانے سے پہلے تمام گناہوں سے تائب ہونا ضروری ہے جس کا حق کھایا ہے اسے اس کا حق لوٹا دے یا اس سے معافی مانگ لے کیونکہ یہ حقوق العباد ہے جسے خود اللہ پاک بھی معاف نہ کرے گامگریہاں تو سب الٹا کام چل رہا ہے کہ ہم تمام عبادات بڑے اہتمام کے ساتھ اداکرتے ہیں مگران کے تقویٰ کی دنیا صرف عبادات تک محفوظ ہے مادی زندگی تقویٰ کی قیدسے آزاد ہے وہ عام دنیا دوروں کی طرح جھوٹے،بددیانتی اور خیانت کا اتکاب کرتے ہیں اور انہیں ضمیرتک ملامت نہیں کرتاآج کل کے دور میں عام سی مثالیں ہیں کہ کسی نے اپنے باپ کی جائیداد ہڑپ کرکے بہن بھائیوں کا حق مارا اورحج کرکے حاجی صاحب بن گیااور آج کل لوگ قرض لوٹانا دور کی بات کوئی قرض لینے آئے تو اس پر مارکٹائی یا تھانہ کچہری کے چکرلگوالیتے ہیں مگرحج عمرہ نہیں چھوڑتے۔تقویٰ کی جانچ ہمارے رویے اور کردارسے ہوگی مگریہاں توانسان مگرمچھ،لومڑی،بھیڑیے،سانپ،بچھو ہیں جو ایک دوسرے کا حق کھانے میں کسرنہیں چھوڑتے مگرحج عمرہ کی ادائیگی میں آگے آگے ہوتے ہیں اسی کا نام ریاکاری ہے حج عمرہ بھی تب ہی فائدہ دے گا جب اس سے پہلے توبہ کی توفیق ملے اسی لیے حج پرجانے سے پہلے دوستوں،رشتہ داروں اورہمسائیوں کے پاس چل کرجائے اگرلوگوں نے دل سے معاف کردیا تو حج قبول ورنہ حج بیکار ہے دل میں کفرکی موٹی موٹی تہیں جمی ہوں تو تقویٰ کیسا اسی لیے حج سے پہلے حقوق العباد پرضرور سوچیں کیونکہ انسان کوپتا ہوتاہے اس نے کس کا حق کھایا ہے۔