احوالِ ایک ادبی نشست کا
(مفتی عبدالرحمن شاہوانی )
“الشیخ حمد انٹرنیشنل ادبی ایوارڈ قطر “کی جانب سے بلوچی و عربی زبان کے ما بین تعلقات اور دونوں زبانوں میں ترجمے کے حوالے سے ایک فکری اور ادبی محفل کا انعقاد طے پایا۔ جو تین نشستوں پر مشتمل تھی۔ یہ محفل باقاعدہ اسٹریم یارڈ کے ذریعے لائیو جاری کی گئی۔ ان میں دوسری نشست پاکستانی وقت کے مطابق 5:30 بجے شروع ہوگئ۔
دوسری نشست کی ابتدا ڈاکٹر عبد الرحمن رفیق شاہوانی (کوئٹہ ) کی زیرِ سرپرستی ہوئی، انہوں نے مسابقہ اور مشارکین کا کلمات تشکر کے بعد نہایت بہترین اسلوب میں تعارف کرایا۔ مختصر تعارف و اہداف بیان کرنے کے بعد محاضرات کا سلسلہ شروع ہوا ۔
سب سے پہلے جناب شیخ عبد الحکیم البلوشی (امارات) نے محاضرہ پیش کیا، دوران محاضرہ انہوں نے بلوچ قبیلے کی فطرتی خوبیوں پر روشنی ڈالی، کرم و سخاوت، مظلوموں و بیگانوں کی مدد اور بہادری جیسی خوبیوں پر تفصیلی گفتگو کی۔
بعد ازاں شیخ اسد اللہ میر الحسنی (پاکستان) نے بلوچی زبان کی تاریخ پر بات کی،ان کا کہنا تھا کہ بلوچی زبان میں لکھنے کی تاریخ قطعی طور پر معلوم نہیں، لیکن کچھ مؤرخین اس زبان میں لکھت کی تاریخ تین صدیوں سے قبل یعنی سولہویں اور سترہویں صدی کو مانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچی زبان کے ترجمہ کی مدت تین مراحل میں تقسیم ہوتی ہے، جن میں ہر ایک مرحلہ ترجمہ کی ثقافتی تحریک پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ان کے بعد شیخ شاہین البلوشی اور شیخ شبیب بن خلیفہ نے یکے بعد دیگرے بلوچی زبان و عربی کے تعلقات اور ان کا آپس میں جوڑ اور ترجمے میں درپیش رکاوٹوں سے متعلق بات کیں۔
یہ ادبی و با رونق نشست سوال و جواب کے سیشن کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی ۔