جمعیت ہرنائی کاروشن ستارہ

0 92

ہرنائی : ویسے توسانحات ہیں کہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہے ہیں سمجھ نہیں آتی کہ آدمی کس کانوحہ لکھیں اور کس کا مرثیہ پڑھیں ؟
سانحہ 23اکتوبرکے حوالے سے کچھ لکھنے کو دل چاہالیکن کاغذ قلم تھام لیاتوہمت جواب دے بیٹھی ، آخرکاآہ آہ آنسوں اورسسکیوں کی جھرمٹ میں بسم اللہ کرکے شہیدجمعیت کاداستان پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں ،
تین بیٹوں کے باپ شاہ محمدترین 1981 کوملک سلطان محمدترین کے ہاں کلی خدرانی ضلع ہرنائی میں پیداہوئے ، آپ کا دیرینہ سیاسی تعلق پشتونخواملی عوامی پارٹی سے تھا ، معلوم نہیں کہ انکی کونسی ادارب ذوالجلال کو پیسند آگئی تھی کہ الیکشن 2013 میں ان کے والدنے باقاعدہ خاندان سمیت قوم پرستی کے اصنام کو مسمارکرتے ہوئے شہیدکاباپ بننے کے لئے قافلہ شہداء جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کردیا، اور باقاعدہ جمعیت علماء اسلام کے الیکشن کمپئین میں بیٹوں سمیت شریک کاررہے،دوسری طرف الیکشن کے بعد جمعیت کےعلماء اسلام کےصوبائی نظم نے 23 اکتوبر 2014کو ” مفتی محمودؒ” کانفرنس کے نام سے کانفرنس کا اعلان کیا، کانفرنس کی تیاریاں مکمل ہوئی ، 22 اکتوبرکو ہرنائی سے انصارالاسلام کا تازہ دم دستہ جلسہ کے انتظامات سنبھالنے کوئٹہ کی طرف چل نکلا، جن میں شاہ محمدترین بھی پیلی وردی پہن کرکوئٹہ چل نکلے اور شایدغیب سے شہادت کی خوشخبری ملی تھی کہ انہوں فوٹوگرافرکے پاس جاکر اوریہ کہہ کر فوٹوکہنچوائی کہ ” کیامعلوم میں دوبارہ ہرنائی آسکوں یانہیں ” کوئٹہ جاکر بھی صادق شہیدگراونڈمیں انصارالاسلام کے ترانوں کی گونج میں ورزش دیکھ کرانہوں نے اپنے ساتھ گئے ہوئے انصارالاسلام کے نوجوانوں کے ساتھ یہ کہہ کر فردافرداتصاویربنائے کہ ” بہت دیرہوئی ھم جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے ” اور ساتھ میں ساتھیوں سے شکوہ بھی کیاکہ ” آپ لوگوں نے پہلے ہمیں ایسے پرمسرت ، پرنور، اوراسلامی جذبے سے لبریز پروگراموں شرکت کی دعوت کیوں نہیں دی ہماری توپوری زندگی عبث گزری ” صوبائی سالار کے ہدایات پرشاہ محمدترین کی ڈیوٹی پنڈال سے باہر گیٹ سے کچھ فاصلے پر میکانگی روڈ پرلگی جہاں وہ اپنی شہادت کی انتظارمیں بھوکے پیاسے رہ کرڈیوٹی سرانجام دیتے رہے ، ظہرکو قائدجمعیت کاپرمغزبیان شروع ہواجس میں انہوں ایک بارپھر ان قوتوں کو للکاراجوپچھلے 70 سال سے پاکستان پر خاموش مارشلائی نظام مسلط کئے بیٹھے ہیں ، قائدمحترم کا وہ جملہ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہاہے جس میں انہوں نے یہودی ایجنٹ اوربیرونی آلہ کار عمران خان کوشدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہا: کہ عمران خان کوئی شئی نہیں میں ان قوتوں کو پیغام دیناچاہتاہوں جن کی ڈھگڈگی اورجن کی انگلی کے اشارے پر وہ ناچ رہاہے یہ سنتے ہی پنڈال گوعمران گو اورگونیازی گوکے فلک شگاف نعروں سے بھڑک اٹھا ، قائدجمعیت کاخطاب مکمل ہوااور قائدجمعیت خفیہ طریقے سےجلسہ گاہ سے روانہ ہوئے جہاں گیٹ کے باہر ایک خودکش بمبارانکے تاک میں بیٹھے تھے پیلارومال باندھ کر خودکش بمبارقائدجمعیت کے گاڑی کے ساتھ ٹکرلینے کے لئے دگ ودو میں تھے کہ اچانک ان پر شاہ محمد کی شاہین صفت نظریں پڑی اوروہ خطرے کو بھانپتے ہوئے خودکش کو گریبان سے پکڑکر اپنی جوانی کی طاقت کے زروپر انہیں اٹھاکر دھکادیا اورگرتے ہی خودکش پٹ پڑا دھماکہ اتنازوردارتھاکہ آسمان میں پرندے پرواز چھوڑکر اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوئے ، زمین ھل گئی پنڈال نعرہ تکبیراللہ اکبرکے زوردار نعروں سے ایک بارپھر گونج اٹھا ہم بارنکلے تو ٹی وی پر بریکنگ نیوزچلی کہ ” مولانافضل الرحمن پر حملہ ، بال بال بچ گئے ” دھماکے میں قائدکی گاڑی مکمل طورپر تباہ ہوگئی لیکن قائدمحترم معجزانہ طور پر بچ گئے اور موقع ہی پرجانباز جمعیت شاہ محمدترین بھی شہیدشاہ محمدترین بن کر جام شہادت نوش فرماگئے اناللہ واناالیہ راجعون،قائدجمعیت کو بچانے والی ذات تو آسمان والے ہیں لیکن دنیاوی اسباب میں بیلٹ فروم گاڑی اور شہیدشاہ محمدترین کا جرآتمندانہ اقدام جیسے اسباب بھی شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے تشبیہہ دینا بے جانہ ہوگا جنہوں نے غزوہ احدکے موقع پر تلواروں کی پوجھاڑمیں خودزخم کھاکھاکر آپ ﷺ کی دفاع کرتے کرتے جام شہادت نوش فرمائے۔۔
خیر ہم فوری طورپر سول ہسپتال پہنچے جہاں شہیدان جمعیت کے لمبی قطارمیں اضافہ کرتے ہوئے شہیدشاہ محمد پورے دودن کی تھکان لیئے یخ زمین پر سورہے تھے ، جہاں ہرآنکھ اشک بار اور ہرلب پر سسکیاں جاری تھی ، ہسپتال کے انتظامیہ نے کاروائی کے بعد شہیدکی جسد خاکی حوالے کردی مجھ سمیت ان کے والد اورکچھ دیگر ساتھیوں کی معیت میں ایمبولینس میں ہرنائی روانہ ہوئے،راستے میں آہ وسسکیاں تھامنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے کہ چپررفٹ کے مقام پر ہرنائی سے جلوس کی شکل میں شہیدکے انتظارمیں کچھ جماعتی احباب اور شہیدکے ورثاء وغیرآئے تھے وہاں پہنچ کر میت کی دیدارکے بعد سفرجاری رہاغالبا رات 2 بجے ہم ان کے آبائی گاؤں کلی خدرانی پہنچے جہاں شہیدکے تین معصوم بچے، بیوہ ، بہن ، بھائی اور بوڑھی والدہ غم سے نڈھال اور آہ وسسکیوں سے تھکے شہیدکے انتظارمیں آنکھیں پھولے بیٹھے تھے۔
24اکتوبرکو شہیدکی جسدخاکی کلی خدارنی قبرستان دفنادیاگیا،اگلے روز صوبہ بھر میں پہیہ جام ہڑتال جلسے اورجلسوس ہوئے صوبہ بھرکی طرح ہرنائی میں بھی ہڑتال اور مظاہرہ ہوا جس سے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولاناعبدالغفورحیدری نے ٹیلیفونگ خطاب فرمایاقائدجمعیت نے شہیدکے والد سے فون کرکے تعزیت کی ، اوریوں غالباسال بھرتعزیتوں کا سلسلہ جاری رہا، ملک بھر سے نامورعلماء کرام ، خطباء ، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی اور اورچاروں صوبوں کےقائدین سمیت تمام سیاسی ومذہبی پارٹیوں کے قائدین وکارکنان نے یہاں ہرنائی آکر شہیدکی شہادت پر گہرے دکھ کااظہاراور تعزیت کیا۔
اوریوں ہرنائی جیسے پسماندہ علاقہ شہیدکی اس قربانی کی وجہ سے ایک نامور اور جمعیت کے قلعے کے نام سے یادکیاجاتاہے اورایسے ہی ایک عام ذمہ دار آدمی سلطان محمدترین آج ہرجگہ ایک جانی پہچانی شخصیت بن کرابھری، اوروہاں جہاں جاتاہے جہاں رہتاہے اپنی تعارف شہیدشاہ محمدترین کے نام سے کرتاہے دراصل یہ اس قربانی کا نتیجہ ہے جو شہیدنے ہمارے لئے دیاتھا ہرنائی کاشہرہو یاپھر شہیدشاہ محمدکاخاندان ان کسی کاتعارف شہیدشاہ محمدترین کے بغیرنامکمل ہے،کیونکہ ایک بڑامکان جب بنتاہے اچانک نہیں بنتا ایک ایک بلکہ اس کے ایک ایک اینٹ نے بھٹہ میں آگ سہی ہے ٹوکر کھائے ہیں اور کئی مراحل کے بعد جاکرایک شکل بن کر مکان کہلاتے ہیں،قدرت کا ایک ہی قانون ہے کہ یہاں ابھرنے کے لئے پہلے دبناپڑتاہے ، یہ قدرت کا اشارہ ہے میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ایک امکان جب ختم ہوتاہے تواسی وقت دوسرے امکان کا آغاز ہوجاتاہے سورج غروب ہواتودنیانے چاندسے اپنی بزم روشن کرلی اسی طرح افراد اورقوموں کے لئے بھی ابھرنے کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے زمانہ اگرایک بارکسی کو گرادے توخداکی اس دنیامیں اس لئے مایوس ہونے کا کوئی سوال نہیں وہ نئے مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ اپنے ابھرنے کا سامان کرسکتاہے ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی دانشمندی کا ثبوت دے اور مسلسل جدوجہد سے کبھی نہ اکتائے ۔
کیونکہ اس دنیامیں مادہ فناہوتاہے تووہ توانائی بن جاتاہے تاریکی آتی ہے تو اس کے بطن سے ایک نئی روشنی برآمدہوجاتی ہے ایک مکان گرتاہے تودوسرے مکان کی تعمیر کے لئے زمین خالی کردیتاہےیہی معاملہ ہمارے زندگی وحیات کا ہے اگرکوئی ھم سے الگ ہوکر دارآخرت کی طرف چل پڑتاہے تو اس کے بدلے دوسرے انعمہ سے اللہ ہمہں نواز کر پہلے غم کو دل ہی سے نکال دیتے ہیں ۔موجودہ دنیاایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں ہرانسان پر غم اور تکلیف کا لمحہ آتاہے مگرایسے لمحات ہمیشہ وقتی ہوتے ہیں اگر آدمی اس لمحےکوبرداشت کرلے تو اس کو بہت جلد معلوم ہوتاہے کہ ” تاریک حال ” میں اس کے لئے ” روشن مستقبل ” کاامکان چھپاہواتھا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.