بچوں کی مثالی تربیت کا راز
ایک صاحب فرماتے ہیں میں میٹرو میں سفر کررہا تھا،ایک عورت کتاب پڑھ رہی تھیں اور سامنے بیٹھا اُس کا چھوٹا بچہ بھی کتاب پڑھ رہا تھا،میرے بازو میں کھڑے ایک شریف آدمی نے عورت سے پوچھا:”آپ نے اسمارٹ فون کی جگہ بچے کے ہاتھ میں کتاب کیسے دی،جبکہ آج کل بچوں کو ہر وقت اسمارٹ فون کی ضرورت ہوتی ہے”اُس خاتون کا جواب دماغ کے دریچے کھول دینے کے لیے کافی تھا:”بچے ہماری کہاں سنتے ہیں،وہ تو ہمیں نقل کرتے ہیں”۔
دراصل یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک اصول ہے کہ بچے وہ نہیں کرتے جو ہم انہیں کہتے ہیں بلکہ بچے وہ کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔بلاشبہ بچے کا پہلا درسگاہ اپنا گھر ہوتا ہے اسی وجہ سے ایک بچہ 65 فیصد معاملات اور اخلاقیات اپنے گھر سے سیکھتا ہے۔چنانچہ ثاقب اظہر صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مولانا صاحب نے مجھے یہ واقعہ بتایا کہ کسی دوست نے مجھے اپنے گھر پر مدعو کیا تو وہاں کھانے کے دوران ان کے دو بچے(جن میں ایک بچہ تین سال کا تھا اور دوسرا چار سال کا تھا)بہت صفائی اور پیار سے کھانا کھاتے تھے پہلے بسم اللہ پڑھا پھر تین سانسوں سے پانی پیا غرض یہ کہ جتنے سنتیں ہیں ان کا لحاظ رکھتے ہوئے کھاتے رہے تو میں نے ان دوست کو کہا کہ آپ نے کتنی زبردست تربیت کی ہے آپ نے اتنے چھوٹے بچوں کو یہ کیسے سکھایا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک لفظ نہیں سکھایا میں خود ان کے سامنے اس طرح کھانا کھاتا ہوں تو بچوں نے بھی کہا کہ بس یہی طریقہ ہے اور وہ آج اسی طرح کھاتے ہیں۔
عام مشاہدے کی بات ہے کہ لڑکے باپ کے پروفیشن،مشغلے اور دیگر عادات کو کاپی کرتے ہیں جبکہ لڑکیاں ذیادہ تر گھریلو کاموں میں اپنی ماں کی نقل کرتی ہیں۔ڈاکٹر وکٹوریہ ساؤتھ کی یونیورسٹی آف لندن میں کی گئی تحقیق کے مطابق جو بچے اٹھارہ ماہ کے ہوچکے ہیں وہ پہلے سے ہی اس چیز کی نقل کرنے لگتے ہیں جب اسے چند بار دہرایا جاتا ہے۔اسی طرح مصننف ڈیرک لائنز نے ایک تحقیق میں یہ ثابت کیا کہ بچے اپنے بڑوں کی ضرورت سے ذیادہ نقل کرتے ہیں یہ عمل پہلے پانچ سالوں کے دوران ہوتی ہے اور وہ ہر چیز اس لیے نقل کرتے ہیں کہ ان کے پاس یہ اندازہ لگانے کے لیے کوئی نفیس معیار یا سوچنے کا عمل نہیں ہے کہ آیا یہ والدین جو کرتا ہے وہ مفید،مناسب اور اخلاقی بھی ہے۔
چنانچہ اپنے اولاد کو بچپن ہی سے اچھے آداب اور اخلاق سے معمور کرنا چاہیے،اس لیے اپنے بچوں کو یہ سمجھ کر کہ وہ ابھی بچے ہیں،کبھی بےپروائی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ انہیں بڑے ہوکر جو بنانا چاہتے ہیں،انہیں ابھی سے ویسے دیکھنا اور برتاؤ کرنا شروع کریں۔چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے آگے چل کر وقت کا عظیم انسان بننا تھا اس کی اعلیٰ علمی وعملی صلاحیتوں اور استعداد کا ظہور بچپن ميں ضروری تھا۔ایک مصنف نے بجا لکھا ہے کہ اللہ تعالٰی کو بچپن کی معصومیت اتنی پسند ہے کہ اس وقت بچہ جو سوچتا ہے بعینہٖ ان چیزوں کو اللہ تعالٰی کسی نہ کسی موقع پر پورا کردیتا ہے۔
لہذا بچوں کو شکریہ کا عادی بنایا جائے،انہیں سلام کی عادت سکھایا جائے اور اس کی عملی ترکیب یہ ہے کہ خود ان کے سامنے سلام کیا کرے کسی سے کوئی چیز لیں یا خریدیں تو شکریہ ادا کرے اس سے آپ کا بچہ بھی یہ سب کچھ سیکھے گا۔یاد رکھے کہ بچوں کے سامنے باوقار رہیں اور کوئی بھی کام کرتے ہوئے محتاط رہیں کہ وہ عمل بچوں کے زریعے کاپی ہوگا۔