یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا”

0 188

تحریر: فضل الہادی
انقلابی شاعر حبیب جالب کا یہ مصرعہ اپنی جگہ درست ہے، مگر اسے ٹھیک ثابت کرنے میں انفرادی طور پر ہم سب نے کردار ادا کیا ہے۔ “یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا ” اصل میں موجودہ پاکستانی معاشرے کے حقیقی چہرے کو عیاں کرتا ہوانظر آتاہے ۔ معاشرہ انسانوں کے اشتراک سے تشکیل پاتا ہے ۔ ایک باوقار معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب اس معاشرے میں رہنے والے لوگ عقل و شعور کے لحاظ سے اندھے نہ ہوں، قانون کا بول بالا ہو ، امیر و غریب دونوں قانون کے سامنے یکساں ہوں۔ وسائل پر عوام کا حق حاصل ہو۔مگر یہاں یہ سب عوامل ناپید ہیں ۔
سفاکیت کا عالم یہ ہے ایک ظالم باپ اپنے سات دن کی بیٹی کو اس لئے قتل کرتا ہے کہ پہلے بیٹا کیوں نہیں ہوا !، خیبر پختونخوا کے محمد زادہ کو اس لئے گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے کہ وہ منشیات کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، انسان کی حیثیت بس اتنی سی رہ گئی کہ ان کی بوری بند لاشیں جنگلات میں سے ملتی ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور میں شھید ہونے والے ایک بچے کی ماں سے ایک ذمہ دار شخص ڈھٹائی کے ساتھ کہتا ہے کہ کیا ہوا تمہارا بیٹا شھید ہوا اور بچے پیدا کرلو۔ یہ حال ہے اس معاشرے اور اس میں رہنے والے پڑھے لکھے ذمہ دار لوگوں کا!! صحافی مظلوم عوام کے درد کا درمان بیان کرنے کے بجائے Political Inclination میں مصروف عمل ہے۔ صوبہ بلوچستان گیس کے ذخائر سے مالامال ہوکر پہر بھی گیس کی سہولت سے محروم ہے،(آئین پاکستان کے مطابق سب سے پہلا حق اس صوبے کا ہے جہاں سے معدنیات نکلتے ہوں)۔ نام نہاد مذہبی ٹھیکیدار اسلام کی غلط تشریح کرکے انسانوں کو اسلام سے بد ظن کرنے میں مصروف ہیں ۔ لہذا حبیب جالب کا یہ کہنا کہ “یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا ” سو فیصد موجودہ پاکستانی معاشرے کی ترجمانی کرتا ہے۔
اس ذہنیت اور سوچ کے پیچھے جس کردار کا ہاتھ ہے وہ ہمارے وہ سیاستدان ہیں، جو پچھلے ستر دہائیوں سے ہمارےنفسیات سے واقف ہیں اور نت نئے نعرے مارکیٹ میں لاکر ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان انگریز کے فارمولہ ( لڑاؤ اور حکومت کرو) کو اپنا کر ہم پاکستانیوں کو صوبائیت میں تقسیم کرچکے ہیں۔ ایک پاکستانی ہونے کے بجائے آج ہم بلوچستانی، سندھی، سرحدی،پنجابی اور گلگتی بن کے ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔
~اس شہر کے حاکم اندھے ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں ۔
آج ہمیں ایک باشعور قوم بننے کی ضرورت ہیں۔ باشعور قوم بننے کیلئے ہمیں ملی اتحاد و اتفاق کو اپنانا ہوگا۔ جس مقصد کیلئے ہمیں ایک الگ وطن ملا ہے اس مقصد کو پہچاننے اور پورا کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی پارٹی کے ورکر ہونے کے ناطے پارٹی لیڈر سے سوال کرنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ دنیا نے ہمارے متعلق جو perception (رائے /فکر) قائم کی ہے اس کو بدلنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ تبدیلی اور احتساب سب سے پہلے خود سے کی جاتی ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے اپنے خاندان بعد میں بقیہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کا حکم ملا تھا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.