انسانیت کا کٹھن سفر _ !!!
انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک کا سفر یقیناً قلیل رہ کر بھی آمر رہتا ہے۔ آمر کیسے رہتا ہے ؟ وہ انسان کو ا±س کا معاشرہ بتلا دیتا ہے، لیکن حقیقتاً مذہبی عقیدوں کے تحت ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ انسان جب عارضی ارض میں قدم رکھتا ہے تو وہ ماتحت ا±س رب کے بنائے ہوئے قانون کا ہوتا ہے جس نے ا±سے عارضی ارض میں سانس بخشی۔ مختلف ادوار میں انسان کی زندگی کیسے بسر ہوتی ہے ؟ اِس سوال کا فکری جواب ا±س بے رنگ معاشرے کے پاس ہوتا ہے جس میں انسان اپنا وجود لے کر پیدا ہوتا ہے۔طِفل کو سہارا ملتا ہی صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ لاچار ماتحت ہوتا ہے، دورِ شباب میں انسان معاشرے کے بنائے ہوئے بے رنگ ا±صولوں کا ماتحت ہوتا ہے اور پھر دورِ مرگ میں ا±ن چار کندھوں کا ماتحت ہوتا ہے جنہوں نے انسان کو واپس ارض کی جھولی میں حوالے کر کے آنا ہوتا ہے۔ یہی دستور ہے اور یہی دستور رہے گا۔ فطرت کے دئیے ہوئے اِس دستور میں بتایا گیا ہے کہ جو انسان، انسانوں کیلئے جیتا ہے وہی انسان انسانوں میں زندہ رہتا ہے۔ ایسے دستور کو درحقیقت انسانیت کا اعلیٰ رتبہ کہا جاتا ہے۔انسانیت ہوتی کیا ہے ؟ اور انسانیت کیلئے انسان کے عوامل کیسے ہونے چاہئے ؟ اور انسان انسانیت کے حصول پر خود کو کب مکمل سمجھتا ہے ؟ ان تمام سوالوں کا جواب مختلف تسلیم شد مذاہب کے احکامات میں درج ہے۔ انسان کا دوسرے انسان کیلئے اچھی سوچ انسانیت ہے، اچھی سوچ کے ذریعے انسان اپنے اعمال سے دوسرے انسان کی مدد کرسکتا ہے، اور جب یہی اچھی سوچ عملی جامہ پہن کر دوسرے انسان کی زبان سے شکریہ کے الفاظ میں سامنے آتی ہے تب جا کر انسان کی کری گئی انسانیت تکمیل کو پہنچ جاتی ہے۔ آج کے انسان میں بتدریج بہت بہتری آئی ہے، انسان شفقت کی چادر اوڑنا سیکھ گیا ہے، انسان دوسروں کیلئے زندہ رہنا سیکھ گیا ہے۔ مذہب سے دوری انسان میں انسانیت پیدا کرتی ہے یا نہیں یہ آج کے دور میں طے کرنا آسان ہے۔ جو شخص خالق کے وجود اور اس کے دئیے ہوئے قوانین اور احکامات پر تکمیلی عمل پیرا ہو تو وہ انسان اپنی زندگی میں انسانیت سے دور رہ کر بھی معاشرے سے جنگ نہیں ہارسکتا۔لیکن معاشرہ اپنے بنائے ہوئے بے رنگ ا±صولوں کے سائے تلے انسان کی انسانیت کے نظرئیے کو ایسے کچل دیتا ہے جیسے انسان کا پاو¿ں زمین کی اوپری لہر کو۔ یک نظریہ رکھنے والے ممالک ایک دوسرے کیلئے ہمدردی رکھے تو باقی ملکوں کیلئے یہ ایک سیاسی اور مفاد کی چال اور جب ایک ملک کا باشندہ دوسرے ملک کے باشندے کیلئے انسانیت کے سوچ کو جنم دے تو وہ غدار۔ کبھی کبھار انسانیت کے کپڑے اس لئے بھی نہیں پہنے جاتے کہ کہی معاشرہ برا نہ مان جائے۔ لیکن ایسے منافی سوچ سے لڑ کر ہار جانے پر واپس ارض کی طرف لوٹ جانا ہی بہتر ہے۔ خالق نے انسان کو باقی تمام مخلوقات سے اس بنا پر شرف نوازی ہے کہ ا±س میں سوچ و چار کیلئے بدھی پیدا کر دی ہے۔ اب اگر انسان اِس بدھی کے وجود سے انکاری بن جاتا ہے تو پھر اِس میں حقیقتاً معاشرے کا بھی قصور نہیں ہوتا۔ انسان کو کبھی ایسے معاشرے کا حصہ بھی نہیں بننا چاہئے جو انسانیت کے درس پر بندوق ہاتھ میں تھما دے۔ عقل و شعور سے بھرا انسان کا دماغ ہی کافی ہونا چاہئے انسانیت کو آمر کرنے کیلئے۔ضروری نہیں کہ انسان ذات، رنگ نسل اور مذہب کو سامنے رکھ کر ہی انسانیت کی قمیض پہنے اور ضروری یہ بھی نہیں کہ انسان مجبوری میں رہ کر انسانیت کے وجود پر تسلیمِ خم ہوجائے۔ انسانیت کی کوئی زبان نہیں ہونی چاہئے اور اگر ہو بھی تو انسانیت کبھی غیر جانبدار ذریعوں سے بہلا پھسلا کر کام مت نکلوائے۔ اِس نقطے کو بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے بین الاقوامی قانون کے ضابطے میں یہ شے واضح کر دی گئی ہے کہ جنگی صورتحال میں بچوں اور بوڑھوں کو جنگ کی بیڑ کے حصوں میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ایک انسانی جان کا ضائع ہونا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اب اس بات سے اندازہ لگ جاتا ہے کہ انسان کیلئے انسان بن کر رہنا ہی اصل انسانیت ہے۔خالق کی بنائی ہوئی ہر جان کے انگنت مقاصد ہوتے ہیں، سمجھنے کو انسان کیلئے انسانیت کا علمبردار ہونا ہی آمر ہے۔ زندگی کے وجود سے لے کر زندگی کے ختم ہونے تک کا سفر انسانیت پر رکھا ہے۔ یاد رہے، جس
انسان کے سینے میں دوسرے انسان کیلئے شفقت اور محبت کا جذبہ نہیں، تو وہ زندگی کے اعلیٰ مقصد کی غیر موجودگی سے خود کو مکمل کبھی نہیں پائے گا۔ معلوم دار شے کو لے کر ہماری سوچ یک زبان ہوسکتی ہے، تو پھر عارضی زندگی کے سفر کو لے کر ہمارا نظریہ بھی یک زبان ہونا چاہئے۔ انسان کا مرنا ا±س کی پیدائش پر لکھ دیا جاتا ہے اور اِس نظریہ کو مسلمان بخوبی دل سے تسلیم کرتے ہیں، جب اِس نظرئیے کا علم ہے، تو پھر انسانیت کا فائدہ ہر انسان کو عملی طور اٹھانا چاہئے۔