بلوچستان میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ تباہ ہوچکا ہے، میر اکبر لہڑی

0 65

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان کے معروف قبائلی رہنما اور آل بلوچستان ٹرانسپورٹرز ایکشن کمیٹی کے سیکریٹری جنرل، بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما، ” حاجی میر محمد اکبر لہڑی ” ایک ممتاز سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ ان کی زندگی قبائلی فیصلوں، سیاسی جدوجہد، اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں نمایاں خدمات سے بھرپور ہے۔مستونگ کے معزز قبائلی خاندان ” لہڑی ” میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی۔ قبائلی روایات اور اقدار کے زیر سایہ پروان چڑھتے ہوئے، انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی طرح اپنے لوگوں کی خدمت کا عزم کیا۔قبائلی رہنما کی حیثیت سے، انہوں نے متعدد اہم فیصلوں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں، قبائلی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا گیا، جس سے علاقے میں امن و امان کی فضا قائم ہوئی۔ ان کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلوں کی وجہ سے، وہ اپنے قبیلے اور دیگر قبائل میں بھی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما کی حیثیت سے، انہوں نے صوبے کی سیاسی منظرنامے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی قیادت میں، پارٹی نے صوبے کے مسائل کو اجاگر کیا اور ان کے حل کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کی۔ ان کی سیاسی بصیرت اور عوامی خدمت کے جذبے نے انہیں پارٹی کے اندر اور باہر ایک معتبر شخصیت بنایا ہے۔ آل بلوچستان ٹرانسپورٹرز ایکشن کمیٹی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے، انہوں نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں درپیش مسائل کے حل کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ ان کی کوششوں سے، ٹرانسپورٹرز کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوا اور اس صنعت میں بہتری آئی۔ ان کی قیادت میں، کمیٹی نے حکومت اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مؤثر مذاکرات کیے، جس سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔ سماجی میدان میں بھی ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے مستونگ اور اس کے نواحی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی بہتری، صحت کی سہولیات کی فراہمی، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے متعدد منصوبوں کا آغاز کیا۔ ان کی فلاحی سرگرمیوں نے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری لائی ہے۔ حاجی میر محمد اکبر لہڑی سیاسی، سماجی، اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں اپنی خدمات کی بدولت ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی قیادت، بصیرت، اور عوامی خدمت کا جذبہ صوبے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
حاجی میر محمد اکبر لہڑی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اور بحثیت ٹرانسپورٹر رہنما فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ ھم نے ان سے تفصیلی گفتگو کا اہتمام کیا۔جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
سوال: سر، سب سے پہلے شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔ آپ ایک قبائلی رہنما، سیاستدان، اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کے اہم نمائندہ ہیں۔ آپ کی شخصیت کئی حیثیتوں میں جانی جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک ان تینوں شعبوں میں سب سے زیادہ چیلنجنگ کون سا ہے؟
جواب: بہت شکریہ، دیکھیں، تینوں شعبے اپنی جگہ بہت اہم ہیں اور ہر ایک میں مختلف نوعیت کے چیلنجز موجود ہیں۔ اگر ہم قبائلی قیادت کی بات کریں تو یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، کیونکہ قبائل کے فیصلے انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں اور ان فیصلوں میں جذبات کے بجائے حقیقت کو دیکھنا پڑتا ہے۔ سیاست میں مشکلات اور بھی زیادہ ہیں کیونکہ یہاں فیصلے صرف عوام کے مفاد کے لیے کرنے ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے سیاسی نظام میں بہت سی رکاوٹیں آ جاتی ہیں۔ لیکن اگر میں سب سے زیادہ چیلنجنگ ذمہ داری کا ذکر کروں، تو وہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہے۔ بلوچستان کے ٹرانسپورٹرز سب سے زیادہ متاثر ہیں، انہیں سیکیورٹی کے مسائل، روڈ نیٹ ورک کی خرابی، اور حکومتی عدم توجہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سوال: بلوچستان میں ٹرانسپورٹرز کو کن بڑے مسائل کا سامنا ہے؟
جواب: بلوچستان میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ قومی شاہراہوں کی خستہ حالی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، مگر یہاں کی سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ آئے روز ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔ کوئٹہ-کراچی شاہراہ، ژوب-ڈی آئی خان روڈ، اور دیگر اہم شاہراہیں اس وقت انتہائی خطرناک ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے۔ ٹرانسپورٹرز کو ڈاکوؤں، بھتہ خوروں اور مسلح گروہوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ رات کے وقت قومی شاہراہوں پر سفر کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گاڑیاں لوٹی گئیں، ڈرائیوروں کو مارا پیٹا گیا، اور بعض اوقات تاوان کے لیے اغوا بھی کر لیا گیا۔تیسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی موثر پالیسی موجود نہیں ہے جو ٹرانسپورٹ کے شعبے کو سہولت فراہم کرے۔ آئے دن پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، مختلف مقامات پر غیر قانونی چیک پوسٹس اور بھتہ خوری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سوال: بلوچستان میں قومی شاہراہوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے، کیا حکومت اس مسئلے پر توجہ دے رہی ہے؟
جواب: حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی سڑکوں کا برا حال ہے اور حکومت اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں۔ کوئٹہ-کراچی شاہراہ کو “شاہراہِ موت” کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں روزانہ درجنوں جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ ہم بارہا حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ اسے دو رویہ کیا جائے، مگر صرف وعدے کیے جاتے ہیں، عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح ژوب-ڈی آئی خان شاہراہ، کوئٹہ-چمن روڈ، خضدار-رٹوڈیرو ہائی وے، اور دیگر اہم سڑکیں بھی انتہائی خراب حالت میں ہیں۔ ان سڑکوں پر حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان پر بھاری ٹریفک کے باوجود روڈ سیفٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل نہیں ہوتا۔
سوال: بلوچستان میں قبائلی نظام کی کیا اہمیت ہے، اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام آج بھی مؤثر ہے؟
جواب: بلوچستان کا قبائلی نظام آج بھی انتہائی مؤثر اور مضبوط ہے۔ درحقیقت، بلوچستان میں حکومتی نظام مکمل طور پر فعال نہیں ہے، اس لیے قبائلی نظام ہی لوگوں کو انصاف فراہم کرتا ہے۔ قبائلی جرگے پیچیدہ مسائل کا حل نکالتے ہیں اور زیادہ تر جھگڑے عدالتوں میں جانے کے بجائے جرگوں کے ذریعے حل ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرے میں امن و امان قائم رہتا ہے۔سرکاری عدالتی نظام میں ایک کیس کا فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، مگر قبائلی جرگہ فوری انصاف فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، قبائلی نظام میں بزرگوں اور معتبر شخصیات کی عزت کی جاتی ہے، جو سماجی ہم آہنگی کے لیے بہت ضروری ہے۔
سوال: بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان وسائل کا صحیح استعمال ہو رہا ہے؟
جواب: بالکل نہیں! بلوچستان سب سے زیادہ قدرتی وسائل رکھنے والا صوبہ ہے، مگر سب سے زیادہ پسماندہ بھی ہے۔ یہاں گیس، سونا، تانبا، کوئلہ، اور دیگر بے شمار معدنیات موجود ہیں، مگر ان کا فائدہ بلوچستان کے عوام کو نہیں مل رہا۔ سب سے بڑی مثال سوئی گیس کی ہے، جو پورے پاکستان میں استعمال ہوتی ہے، مگر بلوچستان کے کئی علاقے آج بھی گیس سے محروم ہیں۔ اسی طرح گوادر پورٹ کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا گیا، مگر کیا گوادر کے مقامی لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ ملا؟ بدقسمتی سے بلوچستان کے وسائل کو دیگر علاقوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ یہاں کے لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔
سوال: بلوچستان کے ٹرانسپورٹرز اور عوام کے مسائل کا کوئی حل ہے؟
جواب: جی ہاں، اگر حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے قومی شاہراہوں کو بہتر بنایا جائے، انہیں دو رویہ کیا جائے، اور سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ٹرانسپورٹرز کے لیے ایک جامع پالیسی تشکیل دی جائے، تاکہ انہیں سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ غیر قانونی ٹیکس، بھتہ خوری، اور کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ بلوچستان کے وسائل کو صحیح معنوں میں یہاں کے عوام کے لیے استعمال کیا جائے۔ تعلیم، صحت، اور بنیادی سہولیات پر توجہ دی جائے، تاکہ یہاں کے نوجوان مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
سوال۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
جواب۔ بلوچستان بھر میں امن و امان کی ل صورتحال انتہائی تشویشناک ہے.حالیہ دنوں میں قومی شاہراہوں کی بندش، ٹرانسپورٹرز اور مسافروں کو درپیش خطرات اور کوچ سروسز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ باعثِ تشویش ہے۔ ان واقعات نے نہ صرف ٹرانسپورٹ کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ مسافروں کے جان و مال کو بھی سنگین خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ بلوچستان کی قومی شاہراہیں ملکی معیشت کی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی بندش سے نہ صرف ٹرانسپورٹرز بلکہ عام عوام کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آئے دن ہونے والے حادثات، اغوا برائے تاوان، مسلح ڈکیتیاں اور پرتشدد کارروائیوں نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔ شاہراہوں کی مسلسل بندش معاشی تباہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سمیت سیکیورٹی ادارے بلوچستان بھر میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔ خاص طور پر ٹرانسپورٹرز، کوچ سروسز اور مسافروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے، قومی شاہراہوں پر سیکیورٹی کے انتظامات بہتر بنانے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو ٹرانسپورٹرز برادری اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے گی، جس میں احتجاجی مظاہرے، پہیہ جام ہڑتال یا دیگر سخت فیصلے شامل ہو سکتے ہیں۔بلوچستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، اور ٹرانسپورٹرز بدترین مالی بحران اور بدحالی کا شکار ہیں۔ آئے دن قومی شاہراہوں کی بندش، امن و امان کی خراب صورتحال اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے اس صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ حالیہ صورتحال کے باعث عوام نے کوچز، بسوں اور دیگر سفری ذرائع پر انحصار ختم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان مسائل کے باعث ہزاروں ڈرائیورز، کنڈیکٹرز اور مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں جبکہ گاڑی مالکان قرضوں اور دیگر مالی دباؤ کے باعث مزید مشکلات میں پھنس چکے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ دور دراز علاقوں میں یہی واحد ذریعہ ہے جو عوام کو سفر اور اشیاء کی ترسیل کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ تاہم، موجودہ حالات نے نہ صرف ٹرانسپورٹرز بلکہ عوام کو بھی شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔قومی شاہراہوں کی بار بار بندش اور ناقص سیکیورٹی انتظامات نے عوام اور ٹرانسپورٹرز کے اعتماد کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ حکومت فوری طور پر ٹرانسپورٹرز کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرے۔ ان مراعات میں ٹیکس میں ریلیف، گاڑیوں کے لیے سبسڈی، سستے قرضے، اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی جیسے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ان مسائل کے حل کے بغیر بلوچستان کا ٹرانسپورٹ سیکٹر مزید بدحالی کا شکار ہو سکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف معیشت بلکہ عوام کی زندگیوں پر بھی پڑیں گے۔حکومت کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کو سہارا دینا نہ صرف ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرے گا بلکہ عوام کے لیے سفری سہولیات کی بحالی اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔اگر حکومت نے ٹرانسپورٹرز کے مسائل پر فوری توجہ نہ دی تو یہ شعبہ مکمل تباہی کی جانب گامزن ہو جائے گا، جس کے سنگین نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔
سوال: آپ عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: میرا پیغام یہ ہے کہ بلوچستان پاکستان کا ایک اہم حصہ ہے، اور ہمیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ بلوچستان کے عوام کو نظر انداز نہ کیا جائے، بلکہ انہیں بھی ترقی میں برابر کا شریک بنایا جائے۔ ہم سب کو مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا، کیونکہ جب تک بلوچستان ترقی نہیں کرے گا، پاکستان بھی مکمل ترقی نہیں کر سکے گا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.