نازک صورتحال میں مرد میدان کا کردار
تحریر عبدالغنی شہزاد
اس وقت پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، جن مصائب اور آزمائشوں میں مبتلا کئے جانے کے اسباب وعوامل ہیں وہ بڑے واضح اور صاف ہیں، جب سے پاکستان کے مقتدر مناصب پر فائز شخصیات نے عمران خان کو بنانے دیگر سیاسی جماعتوں کو آؤٹ کرنے کے لیے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے ، دن کو رات اور رات کو دن بنانے کا عمل شروع کیا وہاں سے بڑی خرابی پیدا ہوئی ، جس سانپ وہ دودھ پلاتے رہے وہی اسے ڈسنے لگا۔ آج کے حالات کے ذمہ دار عمران خان کم جبکہ وہ تمام ادارے زیادہ ذمہ دار ہیں جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی ایماء اور تعاون پر ملک پر ایک ناتجربہ کار شخص کو مسلط کیا گیا، جنہوں نے خوشنما نعروں اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے فوج جیسے منظم ادارے کو بھی بلیک میل کرکے اپنی ذات کو پاکستان کیلئے لازم ٹھہرا یا، وہ کچھ صحیح تھا جو عمران خان چاہتا تھا ، گزشتہ چند برسوں میں انہوں نے ایک گستاخ اور مدر پدر آزاد سیاست نوجوانوں میں متعارف کروائی جو بالآخر ایک فتنہ کی شکل اختیار کرنے لگی ، نعوذ باللہ بعض جذباتی نوجوانوں نے ان کی اندھی عقیدت میں وہ اظہار کرنے لگے کہ ایک مسلمان کا ایمان پر قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بات سوفیصد درست ہے کہ تمام تر پاور کے باوجود عمران خان کو جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ٹف ٹائم دینے میں کسی بھی حربے، پروپیگنڈے، دباؤ، میڈیا ٹرائل اتحادیوں کی بے وفائیوں نے ان کے قدم کمزور نہیں کئے ، جب پارلمینٹ کے اندر تبدیلی کی ہوا چلی تب بھی مولانا فضل الرحمن نے تمام جماعتوں پر واضح کیا کہ احتجاجی تحریک ہی کے ذریعے عمران خان حکومت کے خاتمے کے نتائج بار آور ثابت ہوں گے، مگر ہمیشہ کی طرح ان کی تجویز پر عمل نہ کرکے سیاسی جماعتوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھائے ہیں ۔اب عمران خان کے تحفظ کے لیے چیف جسٹس کھل کر سامنے آئے تو پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کے قائدین اتنے دب گئے کہ مذاکرات کے ترلے کرنے لگے یہاں بھی مولانا فضل الرحمن نے جرائت مندانہ موقف نے صورتحال کا نقشہ بدل کرکے رکھ دیا، اور 14مئی کو دن کے اجالے میں عدلیہ کے سامنے لاکھوں پرامن جمہور پسندوں کا اجتماع کرکے حکومت کو نااہلی سے بچاکے رکھا، اب دوسری سماعت تک بہت کچھ ہوچکا ہوگا جو پرامن مستحکم اور اسلامی پاکستان کے لیے ناگزیر ہوگا ۔ پی ڈی ایم اور جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جمہور اور پی ڈی ایم کی جان ہیں ،ملک کے نازک صورتحال میں مرد بحران ہیں ان کے اعصاب بہت مظبوط ہیں ، مستقبل اور حال کی سیاست ان کے ہاتھوں بے بس اور محتاج رہے گی۔ مولانانے چودہ مئی کو تاریخ ساز خطاب کیا اس سے ان کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کی قدر و منزلت بحال کرنا چاہتے ہیں، ہم پاکستان کے عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا چاہتے ہیں اور عدليہ اتنی محترم ہے اور اُس کا مقام اتنا بلند ہے، اتنا باوقار ہے کہ اگر اِس کے وقار کے لیے اِس بلڈنگ کے اندر دو چند ججوں کو قربان کردیا جاٸے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
عمر عطا بندیال صاحب ہم آپ کو جانتے ہیں ، ہم آپ کا احترام بھی کرتے ہیں لیکن آپ اور آپ کے رفقاء جن معزز کرسیوں پہ بیٹھے ہیں اُن معزز کرسیوں پر بیٹھ کر نہ تمہیں پارليمنٹ کی تذلیل کی اجازت دی جاسکتی ہے نہ تمہیں عوام کی تذلیل کی اجازت دی جاسکتی ہے نہ تمہیں کسی سیاستدان کی تذلیل کی اجازت دی جاسکتی ہے، اگر آپ ہماری تذلیل کریں گے تو پھر تمہارے ہتھوڑے سے ہمارا ہتھوڑا بہت مضبوط ثابت ہوگا، انہوں نے سامنے سپریم کورٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس عمارت کی تقدس اور عزت و وقار پر سودا نہیں کیا جاسکتا اور ایک جج بھی اِس عمارت کی تقدیس کو پامال کرتا ہے تو ہمارا نوجوان اِس عمارت کی تقدیس کے لیے میدان میں نکلے گا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان اسی جگہ پر احتجاج کیا تھا، اسی جگہ پہ ہم نے کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے پارليمنٹ غلط منتخب ہوئی ہے اُس وقت تو آپ کو سوموٹو کا کوئی احساس نہیں ہوا تھا، جب ہم نے پورے ملک میں چودہ ملین مارچ کیے اُس وقت تو آپ نے کوٸی سوموٹو نہیں لیا، جب ہم نے اسلام آباد میں پندرہ لاکھ لوگوں کا اجتماع کرکے تاریخ کا ایک زبردست مظاہرہ کیا اور پندرہ دن تک مظاہرہ جاری رہا آپ کے جسم پر تو جوں تک بھی نہیں رینگی کہ ہم کوئی سوموٹو لے لیں گے، جہاں اتنے خطر کا تمہیں احساس نہیں ہوا آج جب پارليمنٹ نے خود اور خود اُن کے لوگوں نے اُن سے ہاتھ اٹھالیے جب اُن کے نکے دہ ابا نے خود اُس سے ہاتھ اٹھالیا اب آپ اُس کی ابا بننے کی کوشش کررہے ہیں، تمہیں اِس ناجائز بچے کا ناجائز ابا تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔
ہماری تاریخ پڑھ لے، دو سو سال کی تاریخ پڑھ لے، تین سو سال کی برصغیر کی تاریخ پڑھ لے ہم نے ہمیشہ غلامی کی زنجیریں توڑی ہیں اور آج بھی غلامی کی زنجیر کو توڑنا جانتے ہیں، میں چیلنج کرتا ہوں چیف جسٹس صاحب اِس ایک مہینے میں آپ نے اپنے کورٹ کا کتنا مس کنڈکٹ کیا ہے، آپ نے خلاف قانون کتنی کارکردگی کی ہے اور تم اپس میں بیٹھ کر سوچتے ہو کہ وزیراعظم کے خلاف ہم نااہلی کا فیصلہ دیں گے، وزیراعظم نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے، اُس نے اٸین اور قانون کی پاسداری کی ہے اُس کے خلاف خود آئین کی خلاف ورزی کرنے والا جج سوچ رہا ہے، میں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے حکومت پر اِس طرح ناجائز ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو ہم عوام کی منتخب پارليمنٹ ، قومی اسمبلی اور اُس کے وزیراعظم کا تحفظ کریں گے پھر آپ کو پریشانی ہوگی تمہیں اپنے تحفظ کی جگہ نہیں ملے گی، تم نے ایک دہش ت گرد کو اپنی کورٹ میں جو احترام دیا ہے تم مسلمان ہو، پڑھے لکھے ہو ذرا اسلامی تعلیمات کی نظر میں دیکھ لو کیا بحیثیت جج کے تمہارے لیے یہ جائز بھی تھا اور کیا اِس طرح کرکے تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو ازروئے شریعت نااہل نہیں قرار دے چکے ہو، ساٹھ ارب کی کرپشن کا مجرم جب اُس کے خلاف ریمانڈ دیا جاچکا ہے کیا کسی عدالت کی تاریخ میں ایک ملزم کے ریمانڈ لیے جانے پر اُس کو کبھی ضمانت آج تک ملی ہے، کیا انہونیاں ہم دیکھ رہے ہیں، آج کہتا ہے عدالت بلکل ٹھیک ہے نانی کی ماں، نانی کا گھر بنا ہوا ہے جرم کرو عدالت جاؤ تحفظ ملتا ہے، ڈاکہ ڈالو عدالت جاؤ عمران خان کو تحفظ ملتا ہے، اُس کے پارٹی کے مجرموں کو، اُن کے دہشت گردوں کو ، اور پھر کہتا ہے میری جنگ تو صرف آرمی چیف کے خلاف ہے کس باپ پہ ، آپ کی جنگ بھی آرمی چیف کے خلاف ہے، امریکی کانگریس کے اندر ایک یہو د ی جو فرینڈز آف اسرا ئیل کمیٹی کا سربراہ ہے اور جو نیوکون کا رکن ہے وہ بھی آرمی چیف کے خلاف ہے، سی آئی اے کا ریٹائرڈ ایک افغان نژاد امریکی ایجنٹ وہ بھی آرمی چیف کے خلاف ہے، عمران خان بھی آرمی چیف کے خلاف ہے، امریکہ کو تکلیف کیا ہے کہی یہ تکلیف تو نہیں کہ وہ حافظ قرآن کیوں ہے، تمہیں بڑی تکلیف ہورہی ہے، اب آنے والے دن مزید بھاری ہیں ۔ البتہ یہ بات کنفرم ہے کہ آئندہ کی سیاست میں عمران خان نہیں ہوگا ۔ چاہے امریکہ اور مغرب کتنی ہی کوشش کرے۔