کوئٹہ  پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین جناب محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین ارواح شاد عبدالرحیم خان مندوخیل کی دوسری برسی کی مناسبت سے کوئٹہ کے پشتو اکیڈمی کے خان شہید ایڈٹوریم میں علمی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

0 152

کوئٹہ  پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین جناب محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین ارواح شاد عبدالرحیم خان مندوخیل کی دوسری برسی کی مناسبت سے کوئٹہ کے پشتو اکیڈمی کے خان شہید ایڈٹوریم میں علمی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عبدالرحیم خان مندوخیل کی برسی ایسے حالات میں منارہے ہیں کہ یہ ملک خطہ اپنے تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اگر ہمارے ملک کے اسٹیبلشمنٹ محکوم اقوام یاپنجاب کے جمہور ی عوام نے ذرا بھی غلطی کی تو اس ملک کا وجود خطرے میں پڑ جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ عبدالرحیم خان مندوخیل کے ساتھ ہم نے بہترین وقت گزارا ہے اور رحیم صاحب کو ہم سے زیادہ بہتر طور پر کوئی نہیں جانتا ، مرحوم رحیم صاحب نے مجھے کہا کہ جب خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو 14سال قید بامشقت کی سزا ہوئی تو ہم ان سے ملنے گئے ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی اور کتاب تھا جس کا وہ مطالعہ کررہے تھے ۔اور رحیم صاحب نے خان شہید کو کہا کہ خان بابا آپ کی یہ عمر اور یہ 14سال قید تو اس پر خان شہید نے کہا کہ اس قید وبند کو تو کسی نے جھیلنا ہے تو وہ میں ہی ہوں جو اپنے عوام اور عوام کی خاطر اس قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کروں۔ انہوں نے کہا کہ خان شہید کی شہادت کے بعد رحیم صاحب نے ضمنی انتخابات میں میرے ساتھ مہم میں حصہ لیا اور وہ مرتے دم تک اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے رحیم صاحب اور پشتون قومی تحریک میں افضل بنگش، شیر علی باچا ، میاں شہنشاہ ، عبدالرزاق دوتانی ، محمد جان لالا اور ان جیسے دیگرلوگوںنے ایک منجھے اور مضبوط رہنماء کے طور پر کام کیا ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے رہنمائوں کی یاد ہمیشہ منانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک ایک فیڈریشن ہے ہم کسی کے غلام ہے اور نہ ہی کوئی ہمارا آقا ہے ،میںاس ملک کے پشتون ، بلوچ ، سندھی سب قوموں کی جانب سے کہتا ہوں کہ یہ ملک چلانے کے قابل ہے اور یقیناً ہم اس کے چلانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن یہ بات یہ رکھنی چاہیے کہ ہم یہاں غلاموں کی طرح ہر گز نہیں رہ سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اب بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا فوج پاکستان کیلئے ہیں یا پھر پاکستان فوج کیلئے ہیں؟ اب فیصلہ ہونا ہی چاہیے کہ ہمیں اس ملک میں اپنے تاریخی وطنوں پر مقتدر بناکررہنا ہے یا غلام بن کر رہنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ کاجبر ہے کہ ہم ایک فیڈریشن میں اکھٹے ہوگئے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ یہاں ایک جانب ہمارے پشتون بلوچ سیاسی کارکنوں کو محض دفعہ 144کی خلاف ورزی پر گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو عیاشی کا یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے آئین کو ردی کی ٹھوکری میں پھینک کر کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ ایسی حالت میں یہ ملک نہ کبھی چل سکتا ہے اور نہ ہی چلنے کا قابل ہے ۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ملک کا سب سے اہم اور مقتدر ادارہ ہے اور ملک کے بشمول افواج پاکستان تمام اداروں کو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی ٹریننگ اس لیئے ہوتی ہے کہ وہ سرحد اور مورچے پر کھڑے ہو کر ملک کی دفاع کریں ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ ملک کی سیاست کو چلائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم محکوم اقوام پشتون ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی کی حیثیت سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے وسائل پر ہمارا واک واختیار تسلیم کیا جائیں اور ہم وہی چاہتے ہیں جو ہمیں قدرت نے اپنے سرزمین اور اپنے وطن پر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ پاک نے اپنے انبیاء پر چار آسمانی کتابیں بھیجی ہیں اور یہ کتابیں الگ الگ اور ان اقوام کے زبانوں میں ہیں جس سے صاف ظاہر ہیں کہ اللہ پاک کے ہاں بھی ہر قوم کی زبان کی کتنی اہمیت اور افادیت ہوتی ہے ۔ جب اللہ پاک خود زبانوں کے اہمیت کے قائل ہیں تو پھر کیوں اس ملک کے حکمران ہماری قومی زبانوں ، شناخت تہذیب وتمدن سے انکاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محکوم اقوام کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ان کے وسائل پر ان کی حق حکمرانی اور حق ملکیت تسلیم کیا جائیں اور پھر ان محکوم اقوام میں اتنی صلاحیت موجود ہیں کہ وہ اپنے عوام کی بہتر طور پر خدمت کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ وسطی پشتونخوا( فاٹا) میں جو طوفان اٹھا ہے اس کیلئے 2010میں پشتونخوامیپ نے ’’ فاٹا میں امن کا قیام کیسے ممکن؟ ‘‘ کے عنوان سے آرٹیکل لکھا جو ملک کے تمام اخبارات میں شائع ہوا ۔ اس مضمون میں ہم نے کہا تھا کہ وسطی پشتونخوا (فاٹا) میں اٹھنے والے آگ کے شعلوں سے افغانستان سمیت تمام پشتونخوا وطن اور ملک کا چھپہ چھپہ متاثر ہوگا ۔اور آج یہی کچھ ہوا آپ نے خڑ کمر شمالی وزیرستان پر جو کھیل کھیلا وہ ناقابل معافی جرم ہے اور آپ نے لوگوں پر وہ ظلم ڈھائیں ہیں جس کا یہاں بیان کرنا بھی مشکل ہے ۔ پشتون نوجوانوں کو گرفتار کرکے انہیں برہنہ کرکے ویڈیو بنائی جاتی ہے ان کی تضحیک وتذلیل کی جاتی ہے اس سے آپ کیا پیغام دینا چاہے ہیں۔پشتومیں کہاوت ہے کہ ’’ پہ زور کلی نہ کیژی ‘‘ ’’زبردستی گائوں بسائیں نہیں جاسکتے ‘‘ ۔ خڑ کمر میں آپ نے13بندوں کو شہید کیا مگریہ بات یاد رکھنا ہوگا کہ جس طرح برطانوی جنرل ڈائر نے جڑیانوالہ میں گولیاں چلائی اور بے گناہ ہندوستانیوں کا قتل عام کیا اور ایک سکھ نوجوان نے لند ن میں اسی جنرل ڈائر کو اپنا تعارف کرانے کے بعد مین شاہراہ پر اسے قتل کیا ۔ اور اب ہندوستان کی حکومت ملکہ برطانیہ اور برطانوی حکومت سے اس سانحہ پر معافی مانگنے کی طلبگار ہیں اور مجھے یقین ہیں کہ خڑ کمر کے بے گناہ لوگوں کی شہادت پر بھی پاکستان ضرور معافی مانگے گی ۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے بغیر میاں بیوی ، باپ بیٹے اور بھائی بھائی کا رشتہ بھی چل نہیں سکتا اور پھر اس ملک میں محکوم اقوام کس طرح اپنی غلامی کو برداشت کر ے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئین چلانے کے قابل نہیں تو آئیں ایک نیا عمرانی معاہدہ اور آئین بنا کر اس ملک چلائینگے ۔ انہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء ایم این اے علی وزیر کی والدہ نے ویڈیو پیغام میں جو باتیں کی ہیں وہ ہر پشتون کیلئے ایک اہم سبق اور پشتونوں کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی تحریک مظلوم عوام کیلئے ہو اس کی پشتونخوامیپ ہر طرح کی مدد وتعاون کریگی۔ انہوں نے کہا قومی اسمبلی کے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق بھی خیبر پشتونخوا سے ہیں وہ ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اراکین علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں ۔ کیونکہ یہ جرات آج سے کئی صدی پہلے برطانوی اسپیکر نے وقت کے بادشاہ کو ممبران اسمبلی حوالے کرنے سے انکار کیا تھا اور آج اسی روایات کے تحت برطانوی پارلیمنٹ اتنی مضبوط اور طاقتور ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ، پڑوس اور برادر ملک ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ گزشتہ چالیس سال طویل جنگ میں دنیا کے تمام قوموں ، ممالک نے ہر قسم کا اسلحہ یہاں استعمال کیا اور افغانستان کو تباہ وبرباد کرکے چلے گئے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس جنگ زدہ ملک کو دوبارہ آباد کیا جائیں اور وہاں امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں گوریلا جنگ کیلئے پناہ گاہ اور اسلحے کی ترسیل ، مالی وسائل کو لازمی سمجھا جاتا ہے توہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کیلئے پناہ گاہ اور اسلحہ کہاں سے جاتا رہا ہے ۔ اگر پاکستان اور ایران افغانستان میں مسلح مداخلت سے اجتناب کرے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور افغانستان میں امن کی بنیاد پڑ سکتی ہے اور دنیا کی عالمی طاقتوں کو افغانستان کے استقلال اورارضی تمامیت کی ضمانت دینی ہوگی کیونکہ ان دو ممالک سے افغانستان کو زیادہ خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مختلف اضلاع بالخصوص چمن وقلعہ عبداللہ میں جنازے آتے ہیں ان معصوم لوگوںکو کون افغانستان بھیج رہا ہے کیوں ان حفظاء کرام کو کون وہاں بھیج رہے ہیں اگر ہوش کے ناخن نہ لیئے گئے تو تمام علاقہ تباہی بربادی کی لپیٹ میں آئیگا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم گز فوج اور انٹیلجنس اداروں کے خلاف نہیں۔ کیونکہ انٹیلجنس ادارے ہر حکومتوں کے آنکھ اور کان کے مانند ہوتے ہیں مگر انھیں ہر حالت میں پارلیمنٹ کے تابع ہونا پڑیگا۔انہوں نے کہا کہ سابقہ سوویت یونین (یو ایس ایس آر) کے پاس دنیا جہاں کا اسلحہ ،ایٹم بم اور مضبوط ترین انٹیلجنس ادارہ KGBتھا مگر اس تمام کے باوجود سوویت یونین آج پندرہ ملکوں میں تقسیم ہوچکا ہے اور پندرہ ممالک کے آزاد مملکتیں قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ ہمیں آزادی اور محب وطن ہونے کا درس دے رہے ہیں جن کے آبائو اجداد نے انگریزوں کی وفاداری کی اور انگریز کیلئے دن رات کام کیا اور ہم ہی لوگ تھے جو انگریز کے خلاف سینہ سپر ہو کر لڑیں۔ اگر ہم نے اس وطن کا سودا کرنا ہوتا تو انگریز سب سے بڑا خریدار تھا لیکن ہم نے ان سے بھی ڈھنکے کی چوٹ پر لڑائی لڑی اور طویل قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کیوں انگریز سے آزادی حاصل کی حالانکہ انگریز نے اس وطن میں تعلیمی ادارے ، ریلوے لائن اور بہت سارا انفراسٹریکچر بنا کردیا لیکن ہر انسان کی خصلت ہوتی ہے کہ اسے حق حکمرانی میں مکمل اور برابر کاحصہ چاہیے اسی لیئے تو انگریز کو یہاں سے نکالنے میں ہمارے آبائو واجداد نے حصہ لیا تھا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.