جمہویت اورانسانی حقوق کی تواناآواز خاموش ہوگئی
ترجمان جمعیت علماءاسلام ضلع ہرنائی ۔
عثمان کاکڑ بلوچستان میں ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ میں سنہ 1961 پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتونوں کے معروف اور بڑے قبیلے کاکڑ سے تھامیٹرک کوئٹہ میں اسلامیہ اسکول سے کرنے کے بعد انہوں نے بھاولپور سے انجنیئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا،سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی،انھوں لا کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی بھی کیا۔ زمانہ طالعلمی سے ہی وہ پشتون قوم پرست طالب علم تنظیم پشتونخوا ملی اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن سے وابستہ ہوئے،وہ تنظیم کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ سنہ 1987 میں پشاور میں ایک بڑی کانفرنس میں تنظیم کے سیکرٹری اول یعنی سربراہ منتخب ہوئے،عثمان کاکڑ سابق آمر ضیاءالحق کے دور میں پابندیوں کے باعث ترقی پسند طلبا کی ملک گیر الائنس پاکستان پروگریسو الائنس کے پلیٹ فارم سے بھی متحرک رہے۔
سنہ 1986 میں طلبا سیاست سے فراغت کے بعد انھوں نے باقاعدہ طور پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی،پارٹی میں فعال کردار کی وجہ سے محمد عثمان کاکڑ کو پارٹی کا صوبائی صدر منتخب کیا گیا اور گذشتہ طویل عرصے سے پارٹی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔پارٹی کا صوبائی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ عثمان کاکڑ سنہ 2015 میں پشتونخوا میپ کے ٹکٹ پر بلوچستان سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
عثمان کاکڑ نہ صرف اپنی پارٹی کی سطح پر بلکہ محکوم اقوام کی تحریک (پونم) اور ایم آرڈی سمیت دیگر تحریکوں میں بھی فعال کردار ادا کیا،ِ
الیکشن 2018 کے بعد جب عمران خان کی شکل میں خاموش مارشل لاء نافذ ہوئی تو پی ٹی آئی اوراس کے اتحادیوں کے علاوہ باقی تمام پارٹیوں نے الیکشن کو مسترد کرکے اسے سول اداروں کی مداخلت سمجھا، ان پارٹیوں جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ساتھ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے صف اول کاکردار اداکیا، ملک پر مسلط خاموش مارشل لاء کے خلاف جب اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام کی جانب سے آزادی مارچ ہوا تو وہاں بھی عثمان خان کاکڑ نے گرجداراوردھیمی لہجے میں عمران خان کو لانے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا، ایوان بالاسینٹ میں بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے کے بعدانہیں آزادی مارچ کے سٹیج سے بہت زیادہ پزیرائی ملی،آزادی مارچ کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک کی شکل میں ایک ملک گیرسیاسی اتحادسامنے آیاجس کے سربراہ مولانافضل الرحمن مقررہوئے اس اتحادمیں بھی عثمان خان کاکڑنے کلیدی کرداراداکیا،انکی شہادت سے یقیناپی ڈی ایم میں ایک بہت بڑی خلاپیداہوئی، ویسے بھی عثمان کاکڑنے ہمیشہ ایوان بالامیں بلاامتیازِ بلوچ وپٹھان محض بلوچستان کی بات کی، جمہوریت کی بات کی، آئین وقانون کے بالادستی کی بات کی، انہوں نے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے سینٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے جوکرداراداکیاوہ ناقابل فراموش ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے نجی ہسپتال میں جب انکی شہادت ہوئی تو سب سےپہلاجنازہ علامہ ڈاکٹر خالدمحمودسومروکے صاحبزادے مولاناراشدسومرونے پڑھایاجس کا تعلق جمعیت علماءاسلام سے تھا، کراچی سےکوئٹہ تک راستے میں انکی میت کا جواستقبال کیاگیااسے تاریخ کے اوراق میں تحریرکرنامشکل ہے، پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ میں شامل تمام جماعتوں کے کارکنوں اورذمہ داران نے ان کے جسدخاکی کا وہ استقبال کیا جسے آب زرسےلکھاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا،میں سمجھتاہوں یہ سب پی ڈی ایم کی برکت ہے جس نے سیاست میں شعورپیداکیا،پی ڈی ایم کی تشکیل سے تمام پارٹیوں کے کارکنان وذمہ داران ایک دوسرے کے قریب آگئے، عداوت ختم ہوگئی ، اتحادواتفاق کی ایک نئی فضابن گئی ہم نےایک دوسرے کو پہچان لیا، ہم نے ایک دوسرے کی عزت کو سمجھاورنہ قبل ازین پشتون بلوچ اسی طرح جمعیت علماء اسلام اورپشتونخواملی عوامی پارٹی ایک دوسرے کےخون کے پیاسے تھے ،لیکن آج جب عثمان کاکڑکو ماراگیاتو مدارس میں ان کی۔صحت یابی کے۔لئے جمعیت سے وابسطہ علماءکرام نے کی، انکو جنازہ کی نمازیں جمعیت کے رہنماؤں نے پڑھائی، پھولوں کی پتیاں جمعیت کے کارکنوں نے نچاورکئے، انکی۔شہادت سے اس بات کی تمیز یقینامشکل تھی کہ عثمان خان بلوچ تھے یاپٹھان ؟ وہ ایک قوم پرست رہنماء تھے یاپھرایک بڑے عالم دین؟پیر21جون کو جمہوریت اورانسانی آزادی کی ایک تواناآوازلاکھوں سوگواران کو چھوڑ کرہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔اللہ تعالی انہیں غریق رحمت اورلواحقین کو صبرجمیل عطاء فرمائیں ۔