معاملات میں خیروبرکت
الیاس محمد حسین
اعلی کوالٹی کا برینڈڈ سوٹ خریدتے ہوئے جب اس نے کیشئر کو 9 ہزار 5 سو روپے ادا کئے تو وہ اس لڑکے کو بالکل نہیں بھولا جس نے اسے بیسیوں سوٹ دکھانے اور ٹرائی دینے میں ہیلپ کی ، جیب سے ایک ہزار روپے نکالے اور اس لڑکے کی ہتھیلی پہ رکھ دیئے اس کی آنکھوں میں جگنو سے لرزنے لگے کیونکہ اسے پتہ تھا کہ یہ سمارٹ سا نوجوان اچھی ڈریسنگ میں ہے لیکن یہ ملازم ہے مالک نہیں اس آنکھوںمیں تشکرکااحساس نمایاں تھا
پھر ایک کسی اور دن جب ایک بڑی سی دکان سے شوز لے کر جب وہ باہر نکلا تو دروازے کے عین پاس میں کھڑے نیلی وردی میں ملبوس چوکیدار کو ایک ہزار روپے عیدی کے تھما دئیے کیونکہ اسے پتہ تھا کہ کروڑوں کی پراپرٹی اور بزنس پہ تعینات یہ سیکورٹی گارڈ محض چند ہزار ماہانہ کے عوض یہاں پہ ملازم ہے سیکورٹی گارڈ نے اسے حیرت سے دیکھا اس نے دل آویز انداز مسکراکرآنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور یہ جا وہ جا۔اگلے روز اس نے اپنی گاڑی میں پٹرول پمپ سے دو ہزار کا تیل ڈلوا نے کے بعد اس نے فٹافٹ پانچ سو کا کرارا نوٹ نکالا اور آئل فلر بوائے کی ہتھیلی پہ رکھ دیا اور مسکراکرکہا ” بیٹا تمہاری عیدی “یقینا وہ جانتا تھا کہ یہ بیچارہ پٹرول پمپ کا مالک نہیں اور اس خلوص کو دیکھ کر اس لڑکے کی آنکھیں عقیدت سے چمک اٹھی ہوں گی۔۔
وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اچھے ریسٹورینٹ سے 9سو 99 روپے پرہیڈ افطاری کرکے نکلا تو اس نے بیرے کو بالکل فراموش نہیں کیا ، اس مزدور کے ہاتھ پہ ہزار روپے رکھنے سے اس کی شخصیت میں نکھار آگیا۔۔
ہئیر سیلون میں بالوں کی تراش خراش کرنے کے بعد اس نے خدمت سرانجام دینے والے دیہاڑی دار نائی کو سو پچاس روپے اضافی پکڑا ئے تو اسے بے حد سکون میسر آگیا اب اسے مزا آنے لگا جب اس عمل سے اسے سکون ملنے لگا تو یہ عادت بنا لی ، ایک بکس لیا اور گھر میں رکھ دیا ، معمولی بچت ،سکے،چھوٹے نوٹ اس میں ڈالتا جاتا رات کو بخیرو عافیت واپس پہنچنے پہ وہ اللہ کا شکرادا کرتے ہوئے سو روپے خیرات اسی بکس میں ڈال دیتا ، اور ایک دن وہ بکس بھر گیا، اس نے اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور دور دراز کے گاو¿ں میں ایک نادار فیملی کو گھر کا راشن ، اناج اور دیگر ضروریات مہیا کردیں۔۔
اور پھر یہ اس کی عادت بن گئی ، جوتے پالش کروانے ہوں یا سبزی لینی ہو ، فروٹ کی خریداری ہو یا کوئی اور شاپنگ۔۔۔ اس نے نچلے طبقہ کو نوازنا شروع کردیا اور اس عمل سے اس کے رزق میں خیروبرکت کے دروازے کھلتے چلے گئے۔۔
اگر آپ کسی کو سخی ہاتھ سے نوازتے ہیں تو اوپر والے ہاتھ کو اوپر والا بھی سخاوت سے نوازنے لگ جاتا ہے ،بے شک اللہ نوازنے والا اور سخی ہے صلہ رحمی اور انسانیت کی بے لوث خدمت ایک ایسا زبردست احساس ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں یہ شکرگذاری کاایک طریقہ بھی ہے سلیقہ بھی درحقیقت کسی کے کام آنا ایک ایسی نیکی ہے جس سے انسان کو روحانی سکون ملتاہے یہ جذبہ اللہ قسمت والوںکے دل میں اجاگرکرتاہے اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں دوسروںکو اپنی خوشیوںمیں شریک کرنا ایسی عبادت ہے جس کا مزاہی نرالاہے اگرہم دوسروںکی مدد کرنا اپنا لائف سٹائل بنالیں توزندگی کا چلن ہی بدل جاتاہے ہمارے مذہب اسلام نے صلہ رحمی پر بہت زوردیاہے بلاشبہ صلہ رحمی،بے لوث خدمت اور احساس کرنے سے رزق،عمراور معاملات میں خیروبرکت ہوتی ہے آزمائش شرط ہے۔