بلوچستان کے گرین بیلٹ کی تباہی کا زمہ دار کون ؟

0 170

ڈھائی تین ماہ کی غیر حاضری اور خاموشی کے بعد ایک بار پھر حاضر خدمت ہوں طویل غیر حاضری کی وجہ کچھ نجی مصروفیات طبعیت کی ناسازی بھی ہے
تو قارئین پاکستان بھر میں بلوچستان کے گرین بیلٹ سے شہرت رکھنے والا علاقہ نصیراباد ڈویژن جس میں استا محمد٫ جعفرآباد ٫صحبت پور٫ نصیر آباد ٫اضلاع سمیت جھل مگسی کا بھی کچھ حصہ شامل ہیں دریائے سندھ سے نکلنے والے کھیر تھر اور پٹ فیڈرکینالز کی بدولت تقریباً نو لاکھ ایکڑ اراضی پر خریف اور ربیع کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں جن میں خریف کی فہرست چاول ہے اور ربیع کی فصلوں میں گندم ہے 1990سے لے کر 2008-9 تک پورے علاقے میں زرعی اجناس کی بہترین پیداوار کی بدولت ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی کیا زمیندار کیا بزگر سب زرعی اجناس کی بھرپور پیداوار کی بدولت بہت ہی خوش اور مطمئن تھے دیہات گاؤں شہر خوب ترقی کرتے جارہے تھے سندھ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے لوگ روز گار کے سلسلے میں یہاں پر آباد ہونے لگے ہر طرف سکھ وچین کی بانسری بجائی جارہی تھی پھر اچانک 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد پورے علاقہ کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا ہے ۔
اب اس پورے علاقے کی صورت حال اس طرح ہے ہر سال خشک سالی اوراس کے بعد سیلابی کیفیت پیدا کی جاتی ہے جس کی وجہ پورا علاقہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے لوگوں کی بڑی تعداد خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے اپنے آباؤ اجداد کاعلاقے چھوڑ کر کراچی حیدرآباد سکھر سمیت پنجاب کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں 2010 سے شروع ہونے والی ہجرت کا سلسلہ تاحال جاری ہے کیونکہ ہر سال خریف کی کاشت کے وقت پانی کی شدید قلت پیدا کی جاتی ہے جیسے تیسے کرکے کاشت کار لاکھوں روپے خرچ کرکے سر توڑ کوششوں کے بعد خریف کی فصل کاشت کرلیتے ہیں چاول کی فصل کاشت ہونے کے چند دن بعد پورے علاقہ میں سیلابی صورتحال پیدا کر دی جاتی ہے ہر سال کی خشک سالی اور سیلاب سے غریب لوگ عاجز آگئے ہیں واضح رہے آج سے صرف بیس دن قبل پانی کی قلت کی وجہ کمانڈ ایریا کے ہیڈ کے کاشت کار لاکھوں روپے خرچ کرکے بھاری مشینیں اور ٹریکٹر لگا کر نہروں سے پانی لیفٹ کرکے چاول کی فصل اور اس کی پنیری بچانے کی کوشش کرتے رہے جو کہ دیکھا جائے غیر قانونی عمل ہے جس سے ٹیل کے کاشتکاروں کی مکمل طور حق تلفی ہوتی ہے اس عمل پر ٹیل کے کاشت کار چیختے چلاتے رہے ان لوگوں کی چیخ و پکار کسی نے نہیں سنی نہ محکمہ انہار اور نہ ہی انتظامیہ نے
بارشوں کے بعد آج پھر یہی زمیندار ایک بار پھر لاکھوں روپے خرچ کرکے فصلوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے پھر پانی نکالنے میں مصروف ہیں فصلوں کو پانی دیتے اور فصلوں سے پانی نکالتے وقت لاکھوں روپے خرچ کےفصلوں کو بچانے کے لئے مزید خرچ کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب ٹیل کے کاشت کار ایک بار پھر سراپہ احتجاج ہیں ہیڈ کے زمیندار اپنے فصلوں کو بچانے کی خاطر فصلوں سے پانی نکال کر ٹیل کی طرف چھوڑتے ہیں جس سے ٹیل کے نشیبی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے میرے گرین بیلٹ میں اب سیاست صرف پانی سیلاب اور امدادی سامان کی فراہمی کے نام پر کی جارہی ہے 2010کے تباہ کن سیلاب میں استا محمد کی عوام نے دیکھا کہ ایم پی اے کے امیدوار
عطا اللہ خان اور ان کی ہمشیرہ جو دوسری بار خواتین کے مخصوص نشست پر کامیابی حاصل کرنے والی ڈاکٹر ربابہ صاحبہ کے والد محترم ستر سالہ میر بہرام خان بلیدی نے دن رات خود ایکسیویٹر مشین چلا کر استا محمد شہر کو سیلاب سے بچانے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے علاقے میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی علاقے کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں گو کہ اس بات کو چودہ سال ہوگئے ہیں لیکن آج بھی اس کام کا کریڈٹ لیا جارہا ہے اسی طرح میں گزشتہ کٸ روز سے دیکھ رہا ہوں ایم پی اے جعفرآباد عبد المجید بادینی صاحب ڈیرہ اللّہ یار سٹی اور دیگر علاقوں کو سیلاب سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں یہاں تک صرف بنیان پہنے ہوئے موصوف کو ایک عام مزدور کی طرح مزدورں کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا گیا مذکورہ ایم پی اے صاحب کے اس عمل کو دیکھ کر ان کی حمایت اور مخالفت میں ایک طویل بحث شروع ہوگئی ہے تاہم میری نظر میں بھی یہ عمل مناسب نہیں لگتا ہے انھیں چاہئے کہ وہ انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو حکم دیتے اور خود اس کی نگرانی کرتے تو بہتر تھا۔
میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ نصیر آباد ڈویژن کے چار اضلاع میں سیاست اب صرف تین باتوں پر کی جا رہی پانی سیلاب اور فنڈز کی فراہمی کے نام پر اسکورنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
جس کی وجہ یہ ہے کہ پورے بلوچستان میں یہ واحد علاقہ ہے جس کی زمینیں نہری پانی سے سیراب کی جاتی پورے ڈویژن میں لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے ظاہر ہے زراعت کا دارومدار پانی پر ہے ایک عرصے سے سندھ ہمیں ہمارے حصے کا پانی نہیں دے جبکہ بین الصوبائی معاہدے کے مطابق دریا میں پانی کی کمی کی صورت میں پنجاب اور سندھ آپس میں شئیر کریں گے جبکہ بلوچستان اس کٹوتی سے مستثنی قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کبھی بھی سندھ حکومت نے ہمیں ہمارے حصے کا پورا پانی نہیں دیا علاقے کے لوگوں کی خواہش ہے کہ ہم ایسا نمائندہ منتخب کریں جو ہمیں ہمارے حصے کا پانی دلائے الیکشن سے پہلے ہر امیدوار یہی دعوای کرتا ہے اسی طرح 2010 کے سیلاب کے بعد ہمارے کینال اور نہروں کا انفرا سٹیکچر بری طرح متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے معمولی بارشوں میں بھی علاقے میں سیلاب پہنچ جاتا ہے سینکڑوں افراد بے گھر ہوکر کئی روز تک کھولے آسمان تلے بے یار و مددگار بھوک پیاس میں پڑے رہتے ہیں اس لئے جو بھی امیدوار ان کو سیلاب سے بچانے کا وعدہ کرتا ہے تو یہ سیلاب متاثرین اس امیدوار کو مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں پھر اسی طرح سب کچھ سیلاب کی نذر ہونے والے لوگوں کو پی ڈی ایم اے این ڈی ایم اے اور مختلف این جی اوز کی جانب سے امداد لے کر دینے کی یقین دھانی کرانے والے امیدوار کو لوگ سر پر اٹھا لیتے ہیں
اب آتے ہیں اس بات کی جانب جس کی وجہ سے میرے گرین بیلٹ کو تباہی کے دہانے پر کس کس نے پہنچایا خوش حالی کو بد حالی میں تبدیل کرنے والے کون لوگ ہیں؟
تو جناب میں سمجھتا ہوں اس میں سر فہرست قصور وار محکمہ انہار کے کرپٹ نااہل اہلکار ہیں اور ڈویژنل انتظامیہ سیاسی نمائندے بڑے زمیندار جاگیردار شامل ہیں مضمون کی طوالت کے باعث ان کا تفصیلی ذکر پھر کسی کالم میں پیش کرونگا فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ میرے علاقے کے غریب بےبسوں کی آہ اک روز ضرور رنگ لائے گی مظلوموں کی بد دعا ایسا نہ ہو کہ ایک روز سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.